آؤشوِٹس کے نازی اذیتی کیمپ کی آزادی کے 65 سال
27 جنوری 2010قریب سات عشرے قبل اس دور کی جرمن ریاست میں اڈولف ہٹلر کے اقتدار میں آنے کے چند سال بعد، نازی جرمنی کے اس کے ہمسایہ ملکوں پر فوجی حملوں کے ساتھ شروع ہونے والی دوسری عالمی جنگ میں جو کئی ملین انسان مارے گئے تھے، ان میں قریب چھ ملین یہودی بھی شامل تھے۔ ان میں سے قریب تین لاکھ صرف ایک اذیتی کیمپ Auschwitz میں مارے گئے۔ ان تین لاکھ انسانوں میں سے بہت بڑی اکثریت یہودی نسل کے ان باشندوں کی تھی جنہیں پولینڈ کے علاوہ نازی جرمنی کے زیر قبضہ کئی دیگر یورپی ملکوں سے آؤشوِٹس کے اذیتی کیمپ میں پہنچایا گیا تھا۔
تاریخی حقائق ثابت کرتے ہیں کہ ان تین لاکھ ہلاک شدگان میں یورپی یہودیوں کے علاوہ 70 اور 75 ہزار کے درمیان پولینڈ کے غیر یہودی شہری تھے، کم ازکم 21 ہزار روما اور سنتی نسلوں کے خانہ بدوش، 15 ہزار سوویت جنگی قیدی اور قریب 15 ہزار ایسے دیگر افراد بھی جو مختلف یورپی ملکوں میں نازی جرمنی کے فوجی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت میں شامل رہے تھے۔نازی دورمیں آؤشوِٹس کا اذیتی کیمپ، وہاں لاکھوں انسانوں کا ناقابل بیان حالات میں قتل اور پھر جنوری 1945 میں سوویت یونین کے فوجی دستوں کے ہاتھوں اس کیمپ کی آزادی،یہ سب بیسویں صدی کی تاریخ کے اتنے بڑے واقعات ہیں کہ اقوام متحدہ کی طرف سے 27 جنوری کو ہر سال ہولوکاسٹ کی یاد میں منایا جانے والا بین الاقوامی دن بھی قرار دیا جاچکا ہے۔
اس سال 27 جنوری کو آؤشوِٹس کے نازی اذیتی کیمپ کی آزادی کے 65 سال پورے ہونے کے موقع پر جنوبی پولینڈ کے اس قصبے میں بہت سی تقریبات کااہتمام کیا گیاجن میں کئی سرکردہ غیرملکی مہمان بھی شریک ہوئے۔ ان تقریبات کےشرکاء میں بہت سے ایسے سابقہ قیدی بھی تھے جنہیں 1945ء میں سوویت دستوں کی آمد کے ساتھ اس کیمپ سے رہائی ملی تھی اور جو آج بھی اس المناک حقیقت کے ذاتی گواہ ہیں کہ نازی دورمیں جرمن دستوں نے عام قیدیوں، خاص کر یہودیوں پر کس کس طرح کے ظلم نہیں کئے تھے۔
نازی جرمن دور کا آؤشوِٹس میں قائم کیا گیا اذیتی کیمپ یہودیوں کے قتل عام یا ہولوکاسٹ کی سب سے بڑی علامت ہے۔ یہ علامت ہر حوالے سے اس امر کا ثبوت بھی ہے کہ نازی سوشلسٹوں نےیورپ سے یہودیوں کے خاتمے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔
آؤشوِٹس بِرکےناؤ میموریل اور میوزیم میں رکھا گیا ریکارڈ کسی بھی انسان کے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لئے کافی ہے۔ خواتین اور بچوں سمیت، قیدیوں کے ساتھ جانوروں سے بھی برا سلوک، زندگی اور موت کا فیصلہ اس بنیاد پر کہ کون سا قیدی ابھی مزید چند روز جبری مشقت کر سکتا ہے، پھر جلد یا بدیر ان قیدیوں کی منزل وہ گیس چیمبر جہاں زبردستی بند کئے جانے والے انتہائی دہشت زدہ لیکن زندہ انسان ہوتے تھے اور وہاں سے باہر نکالی جانے والی صرف ان کی راکھ۔
یورپ میں دوسری عالمی جنگ کا آغاز 1939ء میں یکم ستمبر کے روز نازی جرمن دستوں کے پولینڈ پر فوجی قبضے سے ہوا تھا۔ نازیوں نے پولینڈ میں یہودیوں کا قتل عام شروع کیا، وہاں کی سیاسی اور سماجی اشرافیہ کے خونریز خاتمے کا آغاز ہوا، اورساتھ ہی ہرسطح پراس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوششیں کی گئیں کہ پولینڈ پر نازی جرمن قبضےکے خلاف مسلح مزاحمت کامیاب نہ ہو۔
اس دوران مقبوضہ پولینڈ میں ایسے کیمپ قائم کرنے کے منصوبے بھی بنائے جانے لگے، جیسے کہ 1933ء میں جرمنی میں نازیوں کے اقتدار میں آنے کے بعد قائم کئے گئے تھے۔ 1940ء میں 27 اپریل کو جرمنی کے SS دستوں کے سربراہ ہائنرِش ہمِلر نے جنوبی پولینڈ میں ’اَوسوِیچِم‘ کے قصبے میں قیدیوں کے لئے ایک کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
ساتھ ہی اس قصبے کو Auschwitz کا جرمن نام بھی دے دیا گیا۔ چودہ جون 1940ء کو پہلی مرتبہ پولینڈ کے 726 سیاسی قیدی وہاں پہنچائے گئے۔ اسی سال موسم خزاں میں پولینڈ میں مسلح مزاحمت کرنے والوں نے لندن میں قائم پولینڈ کی جلاوطن حکومت کو اس کیمپ کے قیام سے آگاہ کیا، جس کے بعد اتحادی ملکوں کو بھی باقاعدہ طور پر اس کی اطلاع دے دی گئی۔
یکم مارچ 1941ء کو ہائنرِش ہِملر نے آؤشوِٹس کا دورہ کیا اور اس کیمپ میں توسیع کا حکم بھی دے دیا۔ بائیس جون 1941ء کو نازی جرمنی نے سوویت یونین کے ساتھ 1939ء میں کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس وسیع وعریض ملک پر بھی حملہ کر دیا اور جنگی قیدیوں کو آؤشوِٹس کے کیمپ میں بھیجا جانے لگا۔ اسی سال تین ستمبر کو اس کیمپ میں پہلی مرتبہ قیدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو گیس چیمبرز میں بند کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ ان میں سے 600 سوویت جنگی قیدی تھے اور ڈھائی سو کے قریب پولستانی شہری۔
1942ء میں بیس جنوری کو نازی جرمنی کی قیادت نے یورپ سے یہودیوں کے خاتمے کے لئے ان کی نسل کشی سے متعلق وہ منصوبہ تیار کیا جسے حتمی حل یا Final Solution کا نام دیا گیا۔ اسی مہینے آؤشوِٹس میں یہودیوں کے زہریلی گیس کی مدد سے قتل عام کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ یکم مارچ 1942ء کو آؤشوِٹس دوئم بِرکےناؤ کا کیمپ بھی کھول دیا گیا۔ اسی مہینے بڑی تعداد میں غیر ملکی یہودیوں کی جنوبی پولینڈ کےاس کیمپ میں منتقلی شروع ہوئی تو پہلے ہی مرحلے میں 69 ہزار فرانسیسی یہودیوں اور سلوواکیہ سے 27 ہزار یہودیوں کو وہاں پہنچا دیا گیا۔ اسی سال مئی میں جرمنی اور آسٹریا سے 23 ہزار اور پولینڈ کے تین لاکھ یہودی بھی آؤشوِٹس کے اس کیمپ میں منتقل کر دئے گئے۔
پھر چار مئی کو نازیوں نے بِرکےناؤ کے کیمپ میں پہلی مرتبہ یہ کام بھی شروع کر دیا کہ وہاں پہنچنے والے قیدیوں کی دو گروپوں میں فوری تقسیم کی جانے لگی۔ پہلے گروپ میں ایسے صحت مند قیدی شامل ہوتے جن سے غلاموں کے طور پر مشقت لی جاتی تھی جبکہ دوسرے گروپ میں وہ یہودی آتے تھےجنہیں فوری طور پر ہی گیس چیمبرز میں بھجوا دیا جاتا تھا۔
پھر دس جون 1942ء کو بِرکےناؤ میں قیدیوں نے بغاوت بھی کی، جو بڑے خونریز طریقے سے کچل دی گئی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں محض سات قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جبکہ کم ازکم تین سو کو نازی فوجیوں نے گولی مار دی۔
جولائی 1942ءمیں ہالینڈ سے 60 ہزار اور اگست میں بیلجیئم سے 25 ہزار اور یوگوسلاویہ سے دس ہزار یہودی بھی وہاں پہنچا دئے گئے۔ اسی سال اکتوبر کی تیس تاریخ کو آؤشوِٹس تین کے نام سے مونووِٹس کے صنعتی کیمپ نے بھی کام کرنا شروع کر دیا، جہاں یہودی قیدیوں سے دفاعی صنعتی پیداوار کے لئے مشقت لی جانے لگی۔ اکتوبر ہی میں اُس علاقے سے بھی مال بردار ریل گاڑیوں کے ذریعے 46 ہزار یہودی آؤشوِٹس پہنچا دئے گئے جو اس وقت چیک جمہوریہ کہلاتا ہے۔ دسمبر 1942ء میں پولینڈ کے اس نازی اذیتی کیمپ میں پہلی مرتبہ سکینڈے نیوین ممالک سے بھی قیدیوں کو پہنچایا جانے لگا۔ ان میں ناروے سے لائے جانے والے 700 یہودی بھی شامل تھے۔
فروری 1943ء میں بِرکےناؤ میں روما نسل کے قیدیوں کے لئے بھی ایک کیمپ قائم کیا گیا۔ مارچ میں یونان سے بھی 55 ہزار یہودی وہاں پہنچا دئے گئے۔ اسی مہینے کی بائیس تاریخ کو آؤشوِٹس کے اس کیمپ میں ان بہت بڑی بڑی بھٹیوں نے بھی کام کرنا شروع کر دیا، جن میں گیس چیمبرز میں ہلاک ہونے والے قیدیوں کی لاشیں جلائی جاتی تھیں۔ اکتوبر 1943ء تک اٹلی سے بھی ساڑھے سات ہزار یہودی قیدی اس کیمپ میں پہنچا دئے گئے تھے جن کی بہت بڑی اکثریت کو اس اذیت گاہ سے نکلنا نصیب نہ ہوا۔
مئی 1944ء میں اتحادی جنگی طیارے فضا سے اس کیمپ کی تصویریں اتارنے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے گیس چیمبرز کا پتہ بھی چلا لیا اور وہاں انسانی لاشوں کو جلانے والی بھٹیوں سے اٹھنے والے دھوئیں کا بھی۔ اسی سال کے اگلے چند مہینوں کے دوران امریکی اور برطانوی جنگی طیارے مونووِٹس کے آؤشوِٹس تھری نامی کیمپ پر بمباری کرنے میں بھی کامیاب رہے۔
مئی 1944ء میں ہنگری سے جو یہودی کئی روز تک مال بردار ریل گاڑیوں کےذریعے آؤشوِٹس پہنچائے جاتے رہے،ان کی تعداد چار لاکھ 38 ہزار تھی۔ اسی سال اگست میں پولینڈ ہی میں Lodz کےghetto سے67 ہزار پولستانی یہودی بھی آؤشوِٹس پہنچا دئے گئے۔ دو اگست کو اس کیمپ میں روما نسل کے تین ہزار خانہ بدوشوں کو گیس چیمبرز میں بند کر کے پہلے ہلاک کر دیا گیا اور پھر ان کی لاشیں بھی جلا دی گئیں۔ اگست 1944ء میں ہی جب وارسا میں نازی دستوں کے خلاف مسلح مزاحمت اپنے عروج پر تھی، مزید 13 ہزار پولستانی باشندوں کو گرفتار کر کے اس کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔
سات اکتوبر کو اس کیمپ میں فرائض انجام دینے والے ان قیدیوں نے بغاوت کر دی، جنہیں ’’خصوصی کمان کے ارکان‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس بغاوت کے بعد خود اس کیمپ کے یہودی قیدیوں کو ہی اس کام پر لگا دیا گیا کہ وہ گیس چیمبرز میں مارے جانے والے دیگر قیدیوں کی لاشیں جلائیں۔ اس بغاوت پر قابو پائے جانے تک، کیمپ میں جاری رہنے والی بدامنی میں SS دستوں کے تین ارکان اور ’’خصوصی کمان‘‘ میں شامل ساڑھے چار سو قیدی مارے جا چکے تھے۔ نومبر 1944ء میں آؤشوِٹس میں یہودیوں کی گیس چیمبرز میں بندش کی صورت میں وسیع تر ہلاکتوں کا سلسلہ بند کر دیا گیا۔
جنوری 1945ء میں جب سوویت دستے مقبوضہ پولینڈ کی طرف مسلسل پیش قدمی کر رہے تھے، SS دستوں نے سترہ جنوری کو جبری طور پر اس کیمپ کے 60 ہزار قیدیوں کو مغرب کی طرف مارچ کرنے کا وہ حکم دے دیا جسے بعد میں اس اقدام کی ہلاکت خیزی کی وجہ سے ’’ڈیتھ مارچ‘‘ کا نام دیا گیا۔ 21 سے 26 جنوری 1945ء تک کے چھ دنوں میں نازی جرمن فوجیوں نے سوویت دستوں سے بچنے کے لئے بِرکےناؤ کے کیمپ میں گیس چیمبرز اور لاشوں کو جلانے والی بھٹیوں کو بم دھماکوں سے اڑا دیا اور ساتھ ہی جنوبی پولینڈ کے اس علاقے سے بھی نکل گئے۔ ایک روز بعد 27 جنوری 1945ء وہ تاریخی دن تھا جب سوویت فوجی پہلی مرتبہ اس کیمپ میں داخل ہوئے، اور وہاں زندہ بچے ہوئے سات ہزار قیدیوں کو آزاد کرا لیا گیا۔
Auschwitz کے نازی اذیتی کیمپ کو تو 65 برس قبل آزاد کرا لیا گیا تھا، مگر وہ لاکھوں انسان جو اس کیمپ اور ایسی ہی دیگر اذیت گاہوں میں اپنے لئے نازیوں کے ذہنوں میں پائی جانے والی نفرت کی بھینٹ چڑھے، وہ خواتین جو گیس چیمبرز میں ماری گئیں، اور وہ بچے جن کی لاشیں بھٹیوں میں جلائی گئیں، ان لاکھوں انسانوں کی موت ماضی کی طرح آنے والے تمام وقتوں میں انسانی کردار پر ایک سیاہ دھبہ اور انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر ایک بڑا بوجھ بنی رہے گی۔
تحریر: مقبول ملک
ادارت: عاطف بلوچ