1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستآئرلینڈ

آئرلینڈ کا ’دس سے پندرہ برس میں‘ دوبارہ اتحاد ممکن

27 دسمبر 2022

آئرلینڈ کے دونوں حصوں میں آبادی کی بدلتی ہیئت اور عوام کی مذہب سے بڑھتی دوری کے باعث یہ جزیرہ آئندہ برسوں میں دوبارہ متحد ہو سکتا ہے۔ ایک معروف آئرش ماہر سیاسیات کے بقول ایسا ہونا اگلے دس سے پندرہ برس میں بھی ممکن ہے۔

Britain and Ireland map

برطانیہ کے صوبے شمالی آئرلینڈ کے دارالحکومت بیلفاسٹ کی یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات ڈنکن مورو کے مطابق گزشتہ چند دہائیوں کے مقابلے میں آئرلینڈ کے منقسم جزیرے کا دوبارہ اتحاد اب کہیں زیادہ ممکن نظر آنے لگا ہے۔

مورو کے مطابق صوبے شمالی آئرلینڈ اور جنوبی حصے پر مشتمل جمہوریہ آئرلینڈ کی آبادی میں باہر سے جا کر وہاں سکونت اختیار کرنے والے تارکین وطن کا تناسب مسلسل زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔

شمالی آئرلینڈ کے نوبل انعام یافتہ رہنما ڈیوڈ ٹرمبل نہیں رہے

اس کے علاوہ آئرلینڈ کی مجموعی آبادی میں ایسے باشندوں کی تعداد بھی مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہے، جن کی سوچ یہ ہے کہ اس جزیرے کی تقسیم اب بالآخر ختم ہونا چاہیے۔

ڈنکن مورو نے جرمن شہر میونخ سے چھپنے ہونے والے اخبار زُوڈ ڈوئچے سائٹُنگ میں منگل ستائیس دسمبر کو شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ بات بعید از امکان نہیں کہ آئرلینڈ کے شمالی اور جنوبی حصوں کا دوبارہ اتحاد 'اگلے دس سے پندرہ برس تک کے عرصے میں ہی‘ حقیقت کا روپ دھار لے۔

مئی میں شمالی آئرلینڈ کی اسمبلی کے انتخابات میں ریپبلکن سوچ کی حامل کیتھولک پارٹی شین فین کا سب سے بڑی پارلیمانی طاقت بن کر ابھرنا ایک تاریخی واقعہ تھاتصویر: Getty Images/AFP/P. Faith

مذہبی تقسیم سے دوری اختیار کرتی ہوئی آبادی

بیلفاسٹ یونیورسٹی کے اس ماہر سیاسیات کے مطابق آئرلینڈ کے دونوں حصوں میں اب زیادہ سے زیادہ لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ وہ خود کو مسیحیت کے دونوں بڑے فرقوں یعنی کیتھولک یا پروٹسٹنٹ عقیدوں سے جڑا ہوا محسوس نہیں کرتے۔

یہ رویہ دیگر یورپی معاشروں میں بڑھتی ہوئی لادینیت کی طرح آئرلینڈ میں بھی مضبوط ہوتے جا رہے سیکولرزم کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ رجحان بزرگ آئرش شہریوں کے مقابلے میں نوجوانوں میں کہیں زیادہ ہے۔

بریگزٹ: لاکھوں برطانوی شہریوں کی آئرش شہریت کے لیے درخواستیں

تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو شمالی آئرلینڈ میں مسیحی عقیدہ سیاسی تقسیم کی وجہ بننے والا عمل بھی رہا ہے۔ اسی لیے آئرش کیتھولک اور پروٹسٹنٹ باشندوں کی شناخت نے بھی دو مختلف خطوط پر نشو ونما پائی۔

ڈنکن مورو کے الفاظ میں، ''آئرلینڈ کے تنازعے میں مذہب ایک اہم سماجی، اقتصادی اور ثقافتی پہلو کا حامل رہا ہے، جس نے وہاں رونما ہونے والے پرتشدد واقعات کی روشنی میں عام لوگوں کی یونین پسند یا ریبپلکن سوچ کے حامیوں کے طور پر سیاسی شناخت تشکیل دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔‘‘

شین فین کی پارلیمانی طاقت کس بات کی علامت؟

شمالی آئرلینڈ کی اسمبلی کے اس سال مئی میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ریپبلکن سوچ کی حامل کیتھولک پارٹی شین فین جس طرح سب سے بڑی پارلیمانی طاقت بن کر ابھری، وہ ایک تاریخی واقعہ تھا۔

ڈنکن مورو نے جرمن اخبار  زُوڈ ڈوئچے سائٹُنگ کے ساتھ انٹرویو میں زور دے کر کہا کہ شین فین تو واضح طور پر شمالی آئرلینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کی حامی ہے۔

اسقاط حمل کی قانونی اجازت: آئرلینڈ میں تاریخ رقم کر دی گئی

اس پیش رفت کے بعد شمالی آئرلینڈ کی یونین پسند پروٹسٹنٹ پارٹی ڈی یو پی کے رہنما بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ شمالی آئرلینڈ میں نیا عوامی رجحان آئرلینڈ کے جزیرے کے مستقبل میں ممکنہ اتحاد ہی کی طرف ایک واضح اشارہ ہے۔

شمالی آئرلینڈ میں پہلی بار کیتھولک اکثریت میں

ماضی میں آئرلینڈ کی شمالی اور جنوبی آئرلینڈ کے طور پر سیاسی تقسیم دراصل کیتھولک اور پروٹسٹنٹ آبادیوں کی ان کی اپنی اپنی اکثریت کی بنیاد پر جغرافیائی تقسیم بھی تھی۔ اس سال ستمبر میں لیکن باقاعدہ طور پر یہ بھی کہا گیا کہ شمالی آئرلینڈ کی آبادی میں پہلی مرتبہ پروٹسٹنٹ باشندوں کے مقابلے میں اکثریت کیتھولک شہریوں کی ہو گئی ہے۔

آئرش گلوکارہ اوکونر نے اسلام قبول کر لیا

ڈنکن مورو کے بقول شمالی آئرلینڈ میں کیتھولک شہریوں کی یہ نئی اکثریت بھی ایک وجہ ہے کہ آئندہ جب بھی کوئی ریفرنڈم کرایا گیا، تو یہ اکثریت بھی شمالی آئرلینڈ کے جنوبی حصے کی جمہوریہ آئرلینڈ کے ساتھ مل جانے اور آئرلینڈ کے جزیرے کے دوبارہ اتحاد ہی کی حمایت کرے گی۔

م م / ش ر (کے این اے، زُوڈ ڈوئچے سائٹُنگ)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں