آئس لینڈ اور وہیل مچھلیاں: شکار بھی، سفاری بھی
20 جولائی 2011بہت چھوٹے پیمانے پر آئس لینڈ میں وہیل سفاری کا آغاز سن 1990 کے عشرے میں ہوا تھا۔ اتنے برس گزر جانے کے بعد اب یہ رجحان بہت مقبول ہو چکا ہے۔ اس وجہ سے ہر سال شمالی یورپ کی اس جزیرہ ریاست کا رخ کرنے والے سیاحوں کی تعداد لاکھوں میں رہتی ہے۔
سن 2006 میں وہیل سفاری کے حامیوں نے اس وقت شدید احتجاج کرنا شروع کر دیا تھا، جب حکومت نے تجارتی پیمانے پر وہیل مچھلیوں کے شکار کی دوبارہ اجازت دے دی تھی۔ ان دنوں دنیا بھر سے وہیل سفاری ٹورز کے لیے زیادہ تر غیر ملکی سیاح گرمیوں کے موسم میں آئس لینڈ کا رخ کرتے ہیں۔
شمالی آئس لینڈ کے ماہی گیری کے لیے مشہور ایک گاؤں میں اپنی ایک چھوٹی سی ساحلی سیاحتی کمپنی چلانے والے ایک 58 سالہ شہریHoerdur نے کہا کہ وہیل مچھلیوں کا تجارتی شکار آئس لینڈ کی سیاحت اور کاروباری شعبے دونوں کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔
ہیردوؤر نامی آئس لینڈ کے اس شہری کے مطابق اس کے ملک میں قومی وہیلنگ کمیشن کے دعویٰ ہے کہ وہیل مچھلی کا شکار اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس مچھلی کے گوشت کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ لیکن ہیردوؤر نے کہا کہ وہیل مچھلی کے گوشت کی منڈی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس کے برعکس ابھی حال ہی میں بین الاقوامی وہیلنگ کمیشن کے سالانہ اجلاس کے موقع پر برطانیہ کے جزیرے جرسی میں اس اجتماع میں شریک آئس لینڈ کے وہیلنگ کمیشن کے سربراہ نے بالکل مختلف موقف اختیار کیا۔
تھوماس ہائڈر نامی اس اہلکار کا کہنا تھا کہ وہیل مچھلیوں کو دیکھنا اور ان کا گوشت کھانا دونوں کام ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اچھی طرح چل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح سیاحتی شعبے کے ساتھ ساتھ ہوٹلنگ کی ملکی صنعت کو بھی ترقی دی جا سکتی ہے۔
آئس لینڈ اور ناروے دنیا کے وہ دو ملک ہیں، جہاں تجارتی بنیادوں پر وہیل مچھلیوں کے شکار کی ابھی تک اجازت ہے۔ انہیں انٹر نیشنل وہیلنگ کمیشن نے استثنائی طور پر یہ اجازت دے رکھی ہے، جس کی وجہ سے اس عالمی ادارے پر بھی سخت تنقید کی جاتی ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک