آئندہ انتخابات پاک بھارت تعلقات پر کیسے اثر انداز ہوں گے؟
25 جون 2018نائلہ علی خان اپنے تبصرے میں لکھتی ہیں کہ فوجی اشرافیہ نے جمہوری معاملات میں جتنی مداخلت کی، ریاستی ادارے اتنے ہی کمزور ہوتے گئے اور معاشرہ اسی قدر تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتا گیا۔ جی ایچ کیو کی ’خود مختاری‘ اسی کی ایک مثال ہے۔ فوجی افسران جیسے جیسے سیاست، حکمرانی اور قومی مفادات کے معاملات میں ملوث ہوتے گئے، ویسے ویسے قومی مفادات اور قومی سلامتی کے جنگ پسند تصورات میں امتیاز کرنا مشکل ہوتا گیا۔ ایک فوج کو سیاسی عمل تاراج کرنے کی اجازت دینا ایک اندوہناک غلطی تھی، ایسی غلطی جس کے سنگین نتائج مرتب ہوئے۔
جمہوریت کی تعمیر و ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے، مقصد یہ ہونا چاہیے کہ عوام کو با اختیار اور باشعور بنایا جائے تاکہ انہیں علاقائی سیاسی حقائق کے حوالے سے پاکستان کی پالیسیوں کی مکمل آگاہی اور مکمل اطمینان ہو اور وہ تباہ کن سیاسی نظریات کا شکار نہ ہو سکیں۔
اب میں بھارت کی جانب رخ کرتی ہوں۔ دائیں بازو کی انتہا پسند قوم پرست پارٹی، بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی حلیف تنظیمیں اور جماعتیں، مکمل طور پر اس حقیقت کو نظر انداز کر چکی ہیں کہ تاریخی اعتبار سے کس طرح مختلف برادریاں جدید قومی اور بین الاقوامی ترقیاتی قوتوں کے تخلیق کردہ فریم ورک میں مل کر کام کر سکتی ہیں۔
بی جے پی کے تخلیق کردہ اور حمایت یافتہ نظریے اور بیانیے ثقافتی جنونیت اور یک رنگی پیدا کرنے، اسے مضبوط کرنے اور اسے سماج میں جاری و ساری کرنے کا کام کرتے ہیں۔ بی جے پی کی تنگ نظری اور کج فہمی بھارت کی آئینی راستی و ملکی سالمیت کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی۔
بھارتی سیاست میں روزافزوں مذہبی تقسیم ایک ایسی جکڑ بندی ہے جس نے بھارت کے سیکیولرازم کے واہمہ کے متعلق سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ اور دوسری طرف پاکستان میں بڑھتی ہوئے مذہبیت بھی اسی قدر نقصان دہ ہے۔ بھارت کی تاریخ اور برصغیر کی سیاست کے طالب علموں کی یاد دہانی کے لیے میں بتانا چاہتی ہوں کہ جواہر لعل نہرو نے بھارت کی قانون ساز اسمبلی میں کہا تھا کہ بھارت کو حقیقی خطرہ مسلمانوں کی مذہب پرستی سے نہیں بلکہ ہندوتوا سے ہوگا جو ممکنہ طور پر توسیع پسند اور مذہبی منافرت پر مبنی ہو گا۔
اس طرح کی غیر عمومی سیاست بھارت کے نسلی گروہوں کو ہندووں اور مسلمانوں میں تقسیم کر دیتی ہے اور ان سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے ثقافتی، لسانی اور سماجی اشتراک سے انکار کر دیں۔
اگرچہ پاکستان کے سابقہ وزیراعظم اور بھارت کے موجودہ وزیراعظم نے ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن پاک بھارت روایتی دشمنی کو انتخابی مہموں میں مصروف سیاسی جماعتوں نے فی الوقت پس پشت ڈال رکھا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین طاقت اور نظریات کی یہ مخاصمت مسئلہ کشمیر سے ماورا ہے۔
گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران پاکستان اور بھارت کے مابین پیدا ہونے والے ہر عسکری بحران کے بعد سفارتی سطح پر باہمی تعلقات کی بحالی کی کوششیں کی گئیں لیکن وہ سبھی کوششیں شرمناک ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ دونوں ممالک نے گاہے بگاہے بحالی امن کا سلسلہ شروع کیا اور مذاکرات کیے۔ مثال کے طور پر جنوری دو ہزار چار میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور پاکستان کے صدر جرنل پرویز مشرف نے ’جموں اور کشمیر سمیت تمام مسائل پر، فریقین کی باہمی رضامندی تک، ہمہ گیر مذاکرات کی بحالی‘ پر اتفاق کیا۔ مشرف نے بھارتی حکومت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ پاکستان کی عملداری میں موجود ’کسی علاقے کو کسی بھی طرح کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے‘لیکن یہ مشترکہ بیان باہمی شکوک شبہات کو ختم نہ کر سکا۔
کئی مبصرین نے اس مشترکہ بیان کی توضیح یوں کی کہ پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر اپنی سابقہ پالیسیوں کا بلواسطہ اعتراف کر لیا ہے اور وہ آخر کار مسئلہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ عسکری محاذ آرائی ختم کرنے کا ارادہ کر چکا ہے۔ تاہم بھارت کے اندر پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کے حوالے سے شکوک و شبہات پائے جاتے تھے کہ یہ تبدیلی دوررس ہے یا محض ایک حربہ ہے۔ اسی طرح پاکستانی حکومت کو خدشہ تھا کہ بھارت کی حکومت پاکستان کی صلح جوئی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر پر اپنی سیاسی اور عسکری گرفت مضبوط کر رہی ہے۔
اس وقت مشرف اور واجپائی نے ایٹمی جنگ کے حوالے سے فراست کا دامن پکڑا تھا اور ایک خطرناک صورتحال ٹل گئی تھی۔
اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اسلام آباد میں نہیں بلکہ راولپنڈی میں بنتی ہے، یہ دیکھنا باقی ہے کہ پاکستان کے آئندہ انتخابات پاک بھارت تعلقات پر کس طرح اثر انداز ہوں گے۔ ایک سول حکومت، خصوصا مختلف جماعتوں کی اتحادی حکومت، فوج اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر خارجہ پالیسی تشکیل نہیں دے سکے گی۔
جمہوریت کے نام پر فوج کی مداخلت اوراپنی ترویج کے رجحان کو، جو استبدادی اور اشرافیہ کی بالادستی پر مبنی نظام حکومت کا لازمہ ہوتا ہے، آئینی ذرائع اور طریقوں کے ساتھ ، پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں سختی سے روکنا چاہیے۔
جہاں تک کشمیر کا سوال ہے، جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر ہتھیاروں کی روک تھام کے امکانات سے قطع نظر، مسئلہ کشمیر کا حل اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی قرار واقعی سزا پر اصرار سے دونوں ملکوں میں جاری ایٹمی اسلحہ سازی کی دوڑ یکدم رک جائے گی۔