آئندہ برس افغانستان میں زیادہ حملے ہوں گے، نیٹو سربراہ کی تنبیہ
2 دسمبر 2014
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی برسلز سے موصولہ اطلاعات کے مطابق نیٹو کے سربراہ ژینس سٹولٹن برگ نے پیر کی شام افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران اپنا یہ عزم دہرایا کہ نیٹو فوجی مشن کے اختتام کے بعد بھی افغانستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔
نیٹو کی تاریخ کا طویل ترین جنگی مشن رواں برس کے اختتام پر مکمل ہو جائے گا، جس کے نتیجے میں زیادہ تر غیر ملکی فوجی افغانستان سے واپس بلا لیے جائیں گے جبکہ وہاں سکیورٹی کی ذمہ داری مقامی دستے سنبھال لیں گے۔
نیٹو کے سربراہ نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے بعد کہا کہ کابل میں حالیہ خونریز حملے اس لیے کیے گئے تاکہ افغان حکومت اور اس کے بین الاقوامی اتحادیوں کی کوششوں کی بجائے عالمی میڈیا میں ان حملوں کو سرخیوں کا موضوع بنوایا جائے۔
سٹولٹن برگ نے اعتراف کیا کہ افغانستان میں طالبان عسکریت پسند ابھی بھی بڑے دہشت گردانہ حملے کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ طالبان کسی نئے علاقے پر قبضہ کر کے اسے اپنے کنٹرول میں رکھنے کے قابل ہیں۔
ناروے کے سابق وزیر اعظم سٹولٹن برگ نے مزید کہا، ’’افغانستان میں آئندہ برس بھی پرتشدد حملے ہوں گے لیکن افغان نیشنل سکیورٹی فورسز ان حملوں سے نمٹنے کی اہل ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کی تمام تر ذمہ داری افغان حکومت کو سونپ دی جائے۔‘‘ افغان مشن کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے سٹولٹن برگ نے کہا، ’’ ہم نے وہ کر لیا ہے، جس کی ہم نے منصوبہ بندی کی تھی۔ اس وقت ہماری اقوام زیادہ محفوظ ہیں اور افغانستان زیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔‘‘
اس موقع پر افغان صدر اشرف غنی نے اصرار کیا کہ وہ کئی عشروں سے خونریزی کا شکار اپنے وطن افغانستان میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ستمبر میں صدارتی منصب پر فائز ہونے والے غنی نے مزید کہا کہ اس مقصد کے لیے وہ تمام باغی گروہوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ پیر کے دن اشرف غنی اور افغان چیف ایگزیکٹو آفیسر عبداللہ عبداللہ نے نیٹو کے صدر دفتر کا دورہ بھی کیا۔
ادھر افغانستان میں رونما ہونے والے تشدد کے ایک تازہ واقعے میں نو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ پیر کے دن شمالی افغانستان میں رونما ہونے والے اس خود کش حملے میں تدفین کی ایک تقریب کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ اس وقت افغان سکیورٹی دستوں کی مجموعی تعدادساڑھے تین لاکھ ہے لیکن متعدد سکیورٹی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ دستے طالبان باغیوں کے حملوں کو ناکام بنانے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہیں۔