’دنیا بھرمیں چالیس لاکھ انسان زیکا وائرس کا شکار ہوسکتےہیں‘
2 فروری 2016عالمی ادارہ صحت نے انتباہ کیا ہے کہ احتیاطی تدابیر نہ کی گئیں تو اگلے برس تک دنیا بھر میں چالیس لاکھ انسان زیکا وائرس کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔
زیکا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک برازیل کی وزارت صحت نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ ان کے ملک کو زیکا وائرس سے نمٹنے کے لیے عالمی تعاون فراہم کیا جائے گا۔
برازیل میں مائیکروسیفالی کے 3,448 مبینہ کیسز سامنے آئے ہیں۔ یہ ایک پیدائشی نقص ہے جس کے ساتھ ایسے بچے جنم لیتے ہیں جن کے سر دیگر بچوں کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔ 270 کیسز کی تصدیق ہو چُکی ہے جن میں سے چھ کا تعلق زیکا وائرس سے بتایا گیا ہے۔
ریکا وائرس جو مچھروں سے پھیلتا ہے دراصل بچوں میں پیدائشی نقص کا سبب بنتا ہے۔ یہ وائرس ماں سے بچے میں منتقل ہوتا ہے۔
برازیل کے اخبار فولہا دے ساؤ پاؤلو کی رپورٹوں کے مطابق اس ملک میں اس وائرس کا پھیلاؤ گزشتہ برس ہی شروع ہو گیا تھا جس کے بعد سے اس وہاں اسقاط حمل کی شرح اوراس وائرس کے پھیلاؤ کا سلسلہ ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ برازیل میں زیکا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 1.5 ملین تک پہنچ سکتی ہے اور براعظم شمالی و جنوبی امریکا میں ان کی تعداد ایک سال کے اندر اندر 4 ملین تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔
برازیل کے بعد زیکا وائرس نے سب سے زیادہ کولمبیا کو متاثر کیا ہے۔ یعنی اس وائرس کے پھیلاؤ کے ضمن میں کولمبیا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے جہاں زیکا کے قریب 20 ہزار کیسس سامنے آ چُکے ہیں ان میں سے جنوری کے اواخر تک زیکا کا شکار ہونے والی حاملہ خواتین کی تعداد 2,116 ہو چُکی تھی۔ کولمبیا کے نائب وزیر صحت فرنانڈو روئز نے ریڈیو کاراکول کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،’’ایک اندازے کے مطابق کولمبیا کے قریب نصف ملین باشندوں میں زیکا وائرس کی موجودگی کے امکانات ہیں۔‘‘
پین امریکن ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق زیکا وائرس چلی، پیرو، ارجنٹائن، یوروگوائے اورکیوبا کے علاوہ تمام لاطینی امریکی ممالک میں پھیل چُکا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے پیر کو کہا تھا کہ بہت ہی چھوٹے سروں کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ،جس کا زیکا وائرس سے گہرا تعلق سمجھا جا رہا ہے، کو عالمی سطح پر صحت عامہ کی ایک ہنگامی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے 18 طبی ماہرین کے ایک بورڈ اور ماہرین زیکا وائرس اور مائیکروسیفالی کے مابین گہرا تعلق دیکھ رہے ہیں۔ جینیوا میں ڈبلیو ایچ او کی چیف مارگاریٹ چین کے مطابق،’’زیکا وائرس اور مائیکرو سیفالی کے مابین مضبوط تعلق صحت کی ہنگامی حالت نافذ کرنے کے لیے کافی ہے۔‘‘ چین کے مطابق سب سے زیادہ بوجھ اس وقت والدین پر ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے تاہم زیکا وائرس کے پھیلاؤ کے روک تھام کے لیے سفر اور تجارت پر پابندی عائد کرنے کو ضروری نہیں سمجھا۔ حاملہ خواتین کو لیکن اس سلسلے میں احتیاط برتنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ مارگاریٹ چین کا کہنا ہے،’’ قابل بھروسہ تیز رفتار تشخیص اور ویکسین کی کمی اور حالیہ دنوں میں زیکا وائرس سے متاثر ہونے والے ممالک کے عوام میں پائی جانے والی عدم مامونیت بلا شبہ تشویش کا باعث ہے۔‘‘
عالمی ادارہ صحت کے مطابق شمالی اور جنوبی امریکا کے کم از کم 23 ملکوں میں زیکا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے تاہم اب تک ایشیا میں زیکا کے کیسس کی تشخیص نہیں ہوئی ہے۔ اس امر کو تاہم بعید ازامکان قرارنہیں دیا جا سکتا کہ یہ وبائی بیماری دیگر براعظموں کی طرح ایشیا میں بھی پھیل سکتی ہے۔