آئندہ پاکستانی حکومت: علامتی اقدامات یا ٹھوس پالیسیاں
شیراز راج
8 اگست 2018
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کے مستقبل میں وزیر اعظم ہاؤس میں قیام نہ کرنے کے فیصلے کو سراہا جا رہا ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ انہیں کرپشن کے خلاف اقدامات سمیت محض علامتی نہیں بلکہ ٹھوس فیصلے کرنا ہوں گے۔
اشتہار
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما نعیم الحق کے ملکی اخبارات کو دیے گئے ایک بیان کے مطابق پاکستان کے آئندہ وزیر اعظم عمران خان شاہراہ دستور پر واقع وزیر اعظم ہاؤس یا اسپیکر ہاؤس میں نہیں بلکہ اسلام آباد میں واقع پنجاب ہاؤس کی ایک انیکسی میں رہیں گے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملکی سکیورٹی اداروں نے بنی گالہ میں واقع عمران خان کے گھر اور اسپیکر ہاؤس کو غیر محفوظ قرار دے دیا ہے۔
پاکستان میں تحریک انصاف کے اس فیصلے کو سراہا جا رہا ہے۔ اخبارات کے کالم نگار، ٹی وی اینکرز اور سماجی تنظیموں سے وابستہ افراد اسے ایک مثبت علامتی قدم قرار دے رہے ہیں جبکہ ناقدین کی نظر میں یہ محض ایک سیاسی فیصلہ ہے جسے مبینہ طور پر اپنے اصولوں پر کیے جانے والے سمجھوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس بحث سے قطع نظر اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عمران خان کے اس فیصلے سے ملکی خزانے کو سالانہ ایک ارب پچاسی کروڑ روپے تک کا فائدہ ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد میں موجودہ وزیر اعظم ہاؤس کا افتتاح سابق وزیر اعظم نوازشریف نے قریب دو دہائی قبل اپنے دوسرے دور حکومت کے آغاز پر کیا تھا۔ شاہراہ دستور پر واقع اس عالیشان عمارت کا رقبہ 135 ایکڑ ہے، جس میں پانچ کشادہ لان، ایک پھلوں کا باغ، متعدد سوئمنگ پولز، ایک ضیافت گاہ، ایک کمیٹی روم، میڈیا روم، 10 سرونٹ کوارٹرز اور سکیورٹی افسروں کی رہائش گاہیں وغیرہ بھی ہیں۔ اس دفتر میں پچاس پروٹوکول افسر کام کرتے ہیں۔ اتنے رقبے میں قائد اعظم یونیورسٹی کے رقبے کے برابر والی (جو پینتیس ایکڑ پر قائم ہے) چار یونیورسٹیاں قائم ہو سکتی ہیں۔
پاکستانی انتخابات: بڑے سیاسی برج جو ’ہیں‘ سے ’تھے‘ ہو گئے
پاکستان میں پچیس جولائی کے عام انتخابات کے جزوی، غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق کئی بڑے سیاسی برج، جو نئی قومی اسمبلی میں اپنی رکنیت کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے، اپنی ناکامی کے ساتھ اب ’ہیں‘ سے ’تھے‘ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
شاہد خاقان عباسی
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے دو انتخابی حلقوں این اے 53 اور این اے 57 سے امیدوار تھے۔ انہیں ایک حلقے سے قریب 48 ہزار ووٹوں اور دوسرے سے تقریباﹰ چھ ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی۔ اسلام آباد سے انہیں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ہرایا۔
تصویر: Reuters/D. Jorgic
مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، تصویر میں دائیں، صوبے خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے امیدوار تھے۔ وہ ان دونوں حلقوں سے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے نامزد کردہ رہنما تھے۔ وہ دونوں ہی حلقوں سے کافی واضح فرق کے ساتھ تحریک انصاف کے امیدواروں سے ہار گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الحق
پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی پارٹی، جماعت اسلامی کے امیر اور متحدہ مجلس عمل کے نامزد کردہ امیدوار سراج الحق صوبے خیبر پختونخوا میں حلقہ این اے سات (لوئر دیر) سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ ان کی ناکامی بہت بڑی اور انتہائی غیر متوقع تھی۔ سراج الحق کو پی ٹی آئی کے امیدوار محمد بشیر خان نے 62 ہزار سے زائد ووٹ لے کر قریب 17 ہزار ووٹوں سے ہرایا۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum
خواجہ سعد رفیق
پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک مرکزی رہنما اور ریلوے کے سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کا لاہور میں حلقہ این اے 131 میں انتہائی کانٹے دار مقابلہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے تھا۔ سعد رفیق کو 83 ہزار 633 ووٹ ملے جبکہ فاتح امیدوار عمران خان کو 84 ہزار 313 رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہوئی۔ اس کے برعکس سعد رفیق لاہور سے پنجاب اسمبلی کی ایک نشست پر کامیاب ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/EPA/T. Mughal
چوہدری نثار علی خان
ماضی میں برس ہا برس تک مسلم لیگ ن کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے والے سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایک آزاد امیدوار کے طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ایک حلقے سے امیدوار تھے۔ وہ دونوں حلقوں سے پی ٹی آئی کے ہاتھوں ہارے۔ یہ 1985ء سے لے کر آج تک پہلا موقع ہے کہ چوہدری نثار راولپنڈی سے اپنی پارلیمانی نشست جیتنے میں ناکام رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Mughal
عابد شیر علی
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے امیدوار اور پانی اور بجلی کے سابق وفاقی وزیر عابد شیر علی، تصویر میں بائیں، فیصل آباد میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے بہت تھوڑے فرق (1200 ووٹوں) سے ہارے۔ عابد شیر علی فیصل آباد میں جس انتخابی حلقے سے ہارے، وہ مسلم لیگ ن کا ایک بڑا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: Imago/ZUMA Press
مصطفےٰ کمال
ماضی میں ایم کیو ایم کی طرف سے کراچی کے میئر کے عہدے پر فائز رہنے والے مصطفےٰ کمال، جو اس وقت پاکستان سرزمین پارٹی کے رہنما ہیں، کراچی سے دو حلقوں سے قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے امیدوار تھے۔ انہیں ان دونوں ہی حلقوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
تصویر: DW/U. Fatima
غلام احمد بلور
عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنما اور طویل عرصے سے ملکی سیاست میں اہم انفرادی اور پارٹی کردار ادا کرنے والے غلام احمد بلور انتخابی حلقہ این اے 31 سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ انہیں بھی پاکستان تحریک انصاف کے ایک امیدوار نے ہرایا۔ ان کے شوکت علی نامی حریف امیدوار کو 88 ہزار ووٹوں کی صورت میں مقامی رائے دہندگان کی متاثر کن حمایت حاصل ہوئی۔
تصویر: Reuters
فاروق ستار
کراچی کے سابق میئر اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار، وسط میں، نے کراچی سے قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے الیکشن میں حصہ لیا۔ این اے 245 میں وہ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین سے واضح فرق سے شکست کھا گئے۔ این اے 247 میں فاروق ستار کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی سے تھا۔ اس حلقے کے جزوی، غیر حتمی نتائج کے مطابق عارف علوی کو بھی ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے فاروق ستار پر برتری حاصل ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
9 تصاویر1 | 9
ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں وزیر اعظم ہاؤس کے ملازمین کی تعداد بھارت کے پرائم منسٹر ہاؤس کے ملازمین کی تعداد سے زیادہ ہے حالانکہ اپنی آبادی میں بھارت پاکستان سے چھ گنا بڑا ہے۔ بھارتی پرائم منسٹر ہاؤس میں لگ بھگ 400 افراد کام کرتے ہیں جبکہ پاکستان کے وزیر اعظم ہاؤس میں 700سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔ امریکا اور بھارت میں یہ معلومات سرکاری ویب سائٹس پر شائع کی جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں ایسا کرنا لازمی نہیں۔
پاکستان میں صوبائی وزرائے اعلیٰ کے سرکاری گھروں کے اخراجات کی بھی یہی کیفیت ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ ہاؤس کا سالانہ بجٹ تیس کروڑ چوبیس لاکھ روپے ہے جبکہ وہاں 325 سرکاری ملازمین کام کرتے ہیں۔ اسی طرح میڈیا رپورٹوں کے مطابق پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کا روزانہ خرچہ قریب تیس لاکھ روپے بنتا ہے۔
گزشتہ بجٹ کے مطابق پنجاب کے گورنر ہاؤس کے اخراجات کا سالانہ تخمینہ تیس کروڑ بیس لاکھ روپے جبکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کا سالانہ خرچ قریب چالیس کروڑ نوے لاکھ روپے بنتا تھا۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے دو ہزار چودہ اور دو ہزار پندرہ کے دوران چار کروڑ روپے کے تحائف تقسیم کیے جبکہ اسی عرصے کے دوران گورنر سردار مہتاب احمد خان نے ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے کے تحائف تقسیم کیے۔
لاہور میں انتخابی مہم کے رنگ اور گہما گہمی
پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں اب صرف دو ہی روز باقی ہیں۔ جیسے جیسے پچیس جولائی کا دن قریب آ رہا ہے، ملک بھر میں انتخابی مہم میں بھی تیزی دکھائی دے رہی ہے۔ اس حوالے سے زندہ دلان ِ لاہور بھی کسی سے پیچھے نہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
نرالا انداز
پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی تصویر سائیکل پر اٹھا کر گلی گلی گھومنے والے ان بزرگ کا انداز بھی نرالا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
خواتین بھی آگے آگے
لاہور میں جاری انتخابی مہم میں خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
قائد کے بغیر انتخابی مہم
اس تصویر میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ نون کے کارکنان کو انتخابی مہم میں مشغول دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم ان کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جیل میں ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
پی ٹی آئی کا جوش
پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت سمجھی جانے والی پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کا جوش و خروش بھی دیدنی ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بھی لاہور سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
ڈیجیٹل اسکرینیں
لاہور میں پہلی مرتبہ انتخابی امیدواران اپنی تشہیر کے لیے ڈیجیٹل اسکرینیں بھی استعمال کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
جھنڈوں والی مصنوعات
لاہور کی مارکیٹوں میں سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں والی مصنوعات بھی فروخت ہو رہی ہیں۔ اس تصویر میں پی ٹی آئی کے جھنڈے والے رنگوں پر مشتمل موبائل کور دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
آٹھ ہزار کیمرے
لاہور پولیس آٹھ ہزار کیمروں کی مدد سے شہر میں جاری انتخابی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہی ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
شہر میں گہما گہمی
شہر میں اوور ہیڈ کراسنگز، پلوں، کھمبوں اور عمارتوں کو بھی انتخابی بینروں نے ڈھک دیا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
ہر طرف بینر ہی بینر
لاہور شہر کی گلیوں اور بازاروں میں بینروں کی بہار ہے۔ پہلے یہ بینر کارکن لگایا کرتے تھے لیکن اب یہ کام کمرشل کمپنیاں کرتی ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
انکوائری کرائیں
پی ٹی آئی کے کارکنان کی تیاریاں بھی زوروں پر ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ نون کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے انتخابی اخراجات کی انکوائری کرائی جائے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
10 تصاویر1 | 10
پاکستان کے معروف صحافی مجاہد حسین نے ملک کی سیاسی اور حکمران اشرافیہ کی بدعنوانی پر چار کتابیں تصنیف کی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے آئندہ وزیر اعظم ہاؤس منتقل نہ ہونے کے فیصلے کے مثبت نفسیاتی اثرات تو مرتب ہوں گے اور اس سے سیاسی فائدہ بھی ہو سکتا ہے تاہم یوں کرپشن میں کمی نہیں ہو گی۔
مجاہد حسین کے مطابق، ’’صوبے میں وی آئی پی رہائش گاہیں تین ہوتی ہیں اور وفاق میں صدر، وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کے علاوہ چیف جسٹس کو بھی وی آئی پی رہائش گاہ دی جاتی ہے۔ ان سب کو جمع کیا جائے تو پورے ملک میں ایسی رہائش گاہوں کی تعداد 20 اور 30 کے درمیان ہو گی۔ ان رہائش گاہوں کے خاتمے سے آپ سادگی اور کفایت شعاری کا درس تو دے سکتے ہیں لیکن ایسے فیصلے ٹھوس معاشی پالیسیوں کا متبادل تو نہیں ہو سکتے۔‘‘
’پورے انتخابی عمل کے نتائج قابل اعتبار ہیں،‘ ميشائيل گالر
01:08
مجاہد حسین کے خیال میں پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کی جانب سے عوامی وسائل کا ضیاع اس وقت رکے گا جب حکومت اور ریاست کے معاملات میں شفافیت پیدا ہو گی اور سب کچھ عوام اور میڈیا کی طرف سے جانچ پڑتال کے لیے کھلا ہو گا۔ انہوں نے کہا، ’’سرکاری معاہدوں، ترقیاتی منصوبوں، اسلحہ کی خریداری کے سمجھوتوں اور درآمدات اور برآمدات کے ٹھیکوں میں شفافیت پیدا کی جانا چاہیے۔ اس وقت تو ہمیں سی پیک کا کچھ پتہ نہیں کہ کیا فیصلے کیے گئے ہیں۔ اسی طرح اندرون ملک اصل کرپشن انتظامی اداروں اور محکموں کی بیوروکریسی کرتی ہے۔ اس پر بھی ہاتھ ڈالنا ہو گا۔‘‘
پاکستان کی سیاسی تاریخ اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے جوڑ توڑ پر قریب سے نظر رکھنے والے عقیل عباس جعفری نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہر عمارت اپنے مخصوص مقاصد کے تحت ہی ڈیزائن کی جاتی ہے۔ اسے تبدیل یا دوبارہ تعمیر کرنے پر اکثر اس قدر اخراجات آتے ہیں کہ کفایت شعاری کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ ہم کراچی کے ایک کالج کے ہاسٹل کو ایک ڈیپارٹمنٹ میں تبدیل کیا گیا، تو بھی ہمیں یہی تجربہ حاصل ہوا تھا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ وزیر اعظم ہاؤس ریڈ زون میں واقع ہے اور وہاں کوئی پبلک بلڈنگ بنانے سے پہلے کئی پہلوؤں پر غور کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ وہاں خرچے کی ایک بہت بڑی مد وہ ملازمین ہیں، جنہیں برطرف نہیں کیا جا سکتا۔‘‘