آئندہ 20 برس میں جرمنی میں ہر تیسرا شخص تارک وطن ہو گا
5 نومبر 2019
ماہرین کے مطابق آئندہ 20 برسوں تک جرمنی کے بڑے شہروں میں آباد 70 فیصد لوگ تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والے افراد ہوں گے اور جرمن معیشت کے استحکام کے لیے مختلف قومیتوں کے لوگوں کی ضرورت ہے۔
اشتہار
مہاجرت سے متعلق ایک جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ سال 2040ء تک جرمنی کی آبادی میں 35 فیصد شرح ایسے افراد کی ہو گی جو تارکین وطن کا پس منظر رکھتے ہوں گے۔
جرمنی کے روزگار سے متعلق تحقیق کے وفاقی ادارے (IAB) میں مائیگریشن ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیربرٹ بروئکر نے جرمن اخبار 'ویلٹ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی ''زیادہ متنوع ہو جائے گا۔‘‘
بروئکر کے مطابق، ''اس وقت تارکین وطن پس منظر رکھنے والے جرمن شہریوں کی تعداد ایک چوتھائی ہے۔ جبکہ آئندہ 20 برس کے دوران یہ تعداد کم سے کم 35 فیصد تک پہنچ جائے گی جبکہ یہ 40 فیصد سے بھی بڑھ سکتی ہے۔‘‘
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں کا تعلق کن ممالک سے؟
وفاقی جرمن دفتر روزگار کے مطابق جرمنی میں کام کرنے والے بارہ فیصد افراد غیر ملکی ہیں۔ گزشتہ برس نومبر تک ملک میں چالیس لاکھ اٹھاون ہزار غیر ملکی شہری برسر روزگار تھے۔ ان ممالک پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں:
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
1۔ ترکی
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں میں سے سب سے زیادہ افراد کا تعلق ترکی سے ہے۔ ایسے ترک باشندوں کی تعداد 5 لاکھ 47 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
2۔ پولینڈ
یورپی ملک پولینڈ سے تعلق رکھنے والے 4 لاکھ 33 ہزار افراد گزشتہ برس نومبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
3۔ رومانیہ
رومانیہ سے تعلق رکھنے والے 3 لاکھ 66 ہزار افراد جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: AP
4۔ اٹلی
یورپی یونین کے رکن ملک اٹلی کے بھی 2 لاکھ 68 ہزار شہری جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPHOTO
5۔ کروشیا
یورپی ملک کروشیا کے قریب 1 لاکھ 87 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Gerten
6۔ یونان
یورپی یونین کے رکن ملک یونان کے قریب 1 لاکھ 49 ہزار باشندے جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
7۔ بلغاریہ
جرمنی میں ملازمت کرنے والے بلغاریہ کے شہریوں کی تعداد بھی 1 لاکھ 34 ہزار کے قریب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
8۔ شام
شامی شہریوں کی بڑی تعداد حالیہ برسوں کے دوران بطور مہاجر جرمنی پہنچی تھی۔ ان میں سے قریب 1 لاکھ 7 ہزار شامی باشندے اب روزگار کی جرمن منڈی تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kögel
9۔ ہنگری
مہاجرین کے بارے میں سخت موقف رکھنے والے ملک ہنگری کے 1 لاکھ 6 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
جرمنی میں کام کرنے والے روسی شہریوں کی تعداد 84 ہزار ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
17۔ افغانستان
شامی مہاجرین کے بعد پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والوں میں افغان شہری سب سے نمایاں ہیں۔ جرمنی میں کام کرنے والے افغان شہریوں کی مجموعی تعداد 56 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-U. Koch
19۔ بھارت
بھارتی شہری اس اعتبار سے انیسویں نمبر پر ہیں اور جرمنی میں کام کرنے والے بھارتیوں کی مجموعی تعداد 46 ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: Bundesverband Deutsche Startups e.V.
27۔ پاکستان
نومبر 2018 تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار پاکستانی شہریوں کی تعداد 22435 بنتی ہے۔ ان پاکستانی شہریوں میں قریب دو ہزار خواتین بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
13 تصاویر1 | 13
ہیربرٹ بروئکر کے مطابق بڑے شہروں میں تارکین وطن پس منظر کے حامل شہریوں کی تعداد نسبتاﹰ زیادہ ہو گی: ''جو کچھ اب ہمیں بڑے شہروں میں نظر آتا ہے وہ مجموعی طور پر پورے ملک میں معمول کی بات ہو گی تاہم فرینکفرٹ جیسے بڑے شہروں میں یہ تعداد 65 سے 70 فیصد تک پہنچ جائے گی۔‘‘
مزید تارکین وطن کی ضرورت
جرمن معیشت دان کا کہنا ہے کہ جرمن معیشت کے استحکام کے لیے مختلف قومیتوں کی حامل آبادی انتہائی اہم ہو گی۔ IAB کے اعداد وشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ جرمنی کو 2060ء تک ہرسال چار لاکھ تارکین وطن کی ضرورت ہے تاکہ اس کی معیشت سست روی کا شکار نہ ہو۔
چیلنج تاہم یہ ہے کہ جرمنی ایسے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرے جو اپنے شعبوں میں انتہائی مہارت رکھتے ہیں۔ بروئکر کے بقول جرمنی کو دیگر ممالک کی لیبر کی طرف بھی توجہ دینی پڑی گی کیونکہ جنوبی اور مشرقی یورپی ممالک سے آنے والے کارکنوں کی تعداد اب ناکافی ہو گی۔
گزشتہ ماہ شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق تارکین وطن کے ایسے بچے جو اپنی زندگی کے ابتدائی حصے میں ہی جرمن پاسپورٹ حاصل کرتے ہیں ان کے اعلیٰ تعلیم کی جانب بڑھنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔