خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین کی موجودگی ناگزیر ہے۔ اگرچہ پاکستانی آئین میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے لیکن ان قوانین کی تشریحات اور عملدرآمد کے مسائل کی وجہ سے خواتین کو مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
اشتہار
پاکستان میں خواتین کا عالمی دن اب عورت مارچ کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے عورتوں کے حقوق کی اس مارچ کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس مارچ کا 2016 سے انعقاد اور اس کی مقبولیت میں شدت کے باوجود ہم نے دیکھا کہ عورتوں کے حقوق اور ان پر ظلم اور بربریت کا بازار آج بھی گرم ہے۔
اغوا، ریپ، ہراسانی، کم عمری میں شادی، جائیداد میں حق نہ دینا اور لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا آج بھی ہمارے معاشرے کے اہم المیے ہیں۔
جہاں خواتین کے حقوق کو عورت مارچ کہ ذریعے زبان ملی ہے وہیں جس بات کو سب سے زیادہ کم زیر بحث لایا جاتا ہے وہ ہے پاکستان کے آئین میں عورتوں کے کون کون سے حقوق شامل ہیں اور خواتین ان کے ذریعے کس طرح اپنے حقوق حاصل کرسکتی ہیں اور ساتھ ساتھ ان حقوق کے فراہم نہ کرنے پر یا ان حقوق کی پامالی کرنے پر مجرم کن سزاؤں کا مستحق ہوسکتا ہے۔
یکساں تعلیمی حقوق
پاکستان کے آئین اور پینل کوڈ کے مطابق تعلیم حاصل کرنا بچے کا آئینی اور بنیادی حق ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر والدین اپنی بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔
عورت کس کس روپ ميں استحصال کا شکار
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين غلامی پر مجبور ہيں اور کئی صورتوں ميں خواتين کا استحصال جاری ہے۔ جبری مشقت، کم عمری ميں شادی، جنسی ہراسگی اور ديگر کئی جرائم سے سب سے زيادہ متاثرہ عورتيں ہی ہيں۔
تصویر: dapd
جدید غلامی کيا ہے؟
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق موجودہ دور ميں غلامی ايسی صورت حال کو کہا جاتا ہے، جس ميں کسی کی ذاتی آزادی کو ختم کيا جائے اور جہاں کسی کے مالی فائدے کے ليے کسی دوسرے شخص کا استعمال کيا جائے۔
تصویر: Louisa Gouliamaki/AFP/Getty Images
تشدد، جبر، جنسی ہراسگی: جدید غلامی کے انداز
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين مختلف صورتوں ميں غلامی کر رہی ہيں۔ 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کی رپورٹ کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت، قرض کے بدلے کام، جبری شاديوں اور ديگر صورتوں ميں وسيع پيمانے پر عورتوں کا استحصال جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
جنسی استحصال آج بھی ايک بڑا مسئلہ
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کے مطابق موجودہ دور میں جنسی استحصال کے متاثرين ميں خواتين کا تناسب ننانوے فيصد ہے۔
تصویر: Sazzad Hossain/DW
جبری مشقت: مردوں کے مقابلے ميں عورتيں زيادہ متاثر
انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن اور بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے تعاون سے اکھٹے کيے جانے والے 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کے اعداد کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت کے متاثرين ميں عورتوں کا تناسب چون فيصد ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
جبری شادیاں، لڑکيوں کے ليے بڑا مسئلہ
رپورٹ کے مطابق قرض کے بدلے یا جبری شاديوں کے متاثرين ميں خواتین کا تناسب چوراسی فيصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Bouys
نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے مہم
'واک فری‘ اور اقوام متحدہ کا 'ايوری وومين، ايوری چائلڈ‘ نامی پروگرام نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے ہے۔ اس مہم کے ذريعے جبری يا کم عمری ميں شادی کے رواج کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو اب بھی 136 ممالک ميں قانوناً جائز ہے۔ يہ مہم کفالہ جيسے نظام کے خاتمے کی کوشش کرے گی، جس ميں ايک ملازم کو مالک سے جوڑ ديتا ہے۔
تصویر: dapd
6 تصاویر1 | 6
آیئن پاکستان کی شق 25-A کے مطابق ریاست 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کی پابند ہے۔
پاکستان میں اگر لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کا موازنہ کیا جائے تو ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 22.5 ملین بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، جن میں خاص طور پر لڑکیاں متاثر ہیں۔ 32 فیصد پرائمری سکول جانے والی عمر کی لڑکیاں سکول نہیں جاتیں جبکہ 21 فیصد اسی عمر کے لڑکے بھی سکول نہیں جاتے۔
چھٹی جماعت تک 59 فیصد لڑکیاں سکول سے باہر ہیں۔ اس کے مقابلے میں 49 فیصد لڑکے سکول نہیں جاتے۔ نویں جماعت میں صرف 13 فیصد لڑکیاں سکول جاتی ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی سکول نہ جانے کی تعداد ناقابل قبول ہے۔ لیکن لڑکیاں بری طرح متاثرہو رہی ہیں۔
کم عمری میں ازدواجیت یا زبردستی کی شادی
پاکستان کے آئین کے مطابق کوئی لڑکا جس کی عمر 18 سال سے کم ہو اور لڑکی جس کی عمر 16 سال سے کم ہو رشتہ ازدواجیت میں نہیں بندھ سکتے۔ پاکستان پینل کوڈ 1860 کے مطابق بغیر رضامندی اور زبردستی کی شادی غیر قانونی ہے۔
اس کے برعکس چھوٹی عمر میں بچیوں کی شادیاں ایک بہت عام رواج ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں یہ شادیاں مختلف مقاصد کے تحت کی جاتی ہیں۔ جس میں جائیداد کی حصولی، اولاد، زمیندارانہ نظام، اور دیگر وجوہات شامل ہیں۔
بہت بار یہ شادیاں چھوٹی بچیوں کو اغوا کر کے بھی کی جاتی ہیں۔ جب کے پاکستان کا قانون کہتا ہے کہ ایسی کسی شادی کو کروانے والے افراد کو سزا دی جاے گی، جس میں 3 سے 5 سال کی قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ شامل ہے۔
اشتہار
جائیداد میں خواتین کا حق
پاکستانی معاشرے میں خواتین کو اکثر جائیداد سے بے دخل کردیا جاتا ہے اور ان کو ان کا شرعی اور قانونی حق نہیں دیا جاتا۔ لیکن پاکستان کا آئین اس بارے میں بالکل واضح طور پر عورتوں کو ان کا جائیداد میں حق دیتا ہے۔
پچھلے سال فروری میں پاکستان کی قومی اسمبلی اور ایوان بالا یعنی سینیٹ نے بھی جائیداد میں خواتین کے حق کے تحفظ کا بل منظور کر لیا تھا، جسے 'انفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2020‘ کہا جاتا ہے۔
بل میں واضح طور پر کہا گیا کہ خواتین کو غیر قانونی اور جعل سازی کے ذریعے جائیداد کی ملکیت سے محروم کیا جاتا ہے۔ لہذا لازم ہے کہ خواتین کے جائیداد کی ملکیت کے حق کو تحفظ دیا جائے۔ قانون کے مطابق خواتین کو جائیداد میں اپنا حصہ حاصل کرنے کا حق ہوگا۔
خواتین کا عالمی دن: پاکستان میں اس مرتبہ پوسٹرز کیسے تھے؟
اس مرتبہ عورت مارچ کی مشروط اجازت دی گئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں نے بھی مظاہرے کیے۔ اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں منعقد ہونے والے مظاہروں کی تصاویر۔
تصویر: DW/R. Saeed
کراچی ریلی میں بھی ہزاروں افراد کی شرکت
خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے عورت مارچ میں اس مرتبہ کراچی میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ شرکاء نے پوسٹرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر خواتین کے حقوق سے متعلق نعرے درج تھے۔
تصویر: DW/R. Saeed
’عورت کا جسم کارخانہ نہیں‘
مظاہرے میں شریک ایک خاتون کے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ تھا، جس پر درج تھا: ’عورت کا جسم کارخانہ نہیں‘۔
تصویر: DW/R. Saeed
’میرا جسم میری مرضی‘
اس نعرے کی تشریح اس مرتبہ بھی مختلف انداز میں کی گئی۔ کئی حلقوں نے اسے جسم فروشی کی ترویج قرار دیا، جب کہ حقوق نسواں کے علم برداروں کے نزدیک اس کا مفہوم مختلف ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
’شرم و حیا کپڑوں میں نہیں‘
مظاہرے میں مرد بھی شریک ہوئے۔ ایک مرد نے ایک پوسٹر پر لکھ رکھا تھا، ’شرم و حیا کپڑوں میں نہیں، سوچ میں‘ (ہے)۔
تصویر: DW/R. Saeed
’دونوں نے مل کر پکایا‘
ایک پوسٹر پر درج تھا ’چڑا لایا دال کا دانہ، چڑیا لائی چاول کا دانہ، دونوں نے مل کر پکایا، مل کر کھایا‘۔
تصویر: DW/R. Saeed
سیاست دان بھی شریک
عورت مارچ میں وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر مرتضیٰ وہاب بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شریک ہوئے۔
تصویر: DW/R. Saeed
بزرگ خواتین نے بھی مارچ کیا
کراچی میں منعقد ہونے والے عورت مارچ میں معمر خواتین بھی شامل ہوئیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
’بے شرم کون؟‘
ایک خاتون نے ایک پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر درج تھا، ’دیکھتے ہو اسے بے شرمی سے تم، پھر کہتے ہو اسے بے شرم تم‘۔
تصویر: DW/R. Saeed
لاپتا بلوچ خواتین کے حق میں پوسٹرز
عورت مارچ کے دوران ایسی بلوچ خواتین اور مردوں کے حق میں بھی پوسٹرز دیکھے گئے جو ’جبری طور پر گمشدہ‘ ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
لاہور: ’بچوں پر جنسی تشدد بند کرو‘
صوبائی دارالحکومت لاہور میں اس برس بھی عورت مارچ میں خواتین نے بھرپور شرکت کی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور میں مرد بھی شانہ بشانہ
لاہور میں خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی بڑی تعداد نے بھی عورت مارچ میں شرکت کی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
مارچ زیادہ منظم
اس مرتبہ عورت مارچ کی مخالفت اور سکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسے بہتر انداز میں منظم کیا گیا تھا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
’ہمارے چینل ہماری مرضی‘
لاہور میں عورت مارچ کے دوران ایسے پوسٹر بھی دکھائی دیے جن پر پاکستانی ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر پر پابندی لگانے کے مطالبے درج تھے۔ انہوں نے ایک ٹی وی شو میں ماروی سرمد سے بدتمیزی کی تھی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
’عورت اب آواز بھی ہے‘
پاکستانی ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر سے متعلق دیگر پوسٹرز پر بھی انہی کے متنازعہ جملوں کو لے کر طنز کیا گیا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
’اس دور میں جینا لازم ہے‘
مظاہرے میں شریک ایک خاتون نے اپنے چہرے پر آزادی تحریر کر رکھا تھا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
مذہبی جماعتوں کی ’حیا واک‘
اسلام آباد میں عورت مارچ کے مد مقابل کالعدم سپاہ صحابہ اور دیگر مذہبی تنظیموں نے ’حیا واک‘ کا انعقاد کیا۔
تصویر: DW/A. Sattar
’جسم کی حفاظت پردہ ہے‘
’حیا واک‘ میں جامعہ حفصہ کی طالبات بھی شریک ہوئیں، جنہوں نے عورت مارچ کے شرکاء ہی کی طرح مختلف پوسٹرز اٹھا رکھے تھے۔
تصویر: DW/A. Sattar
اسلام آباد کا عورت مارچ
پاکستانی دارالحکومت میں اس مرتبہ بھی عورت مارچ کے شرکاء نے دلچسپ پوسٹرز اٹھا رکھے تھے۔
تصویر: DW/A. Sattar
’عزت کے نام پر قتل نہ کرو‘
عورت مارچ میں شریک ایک خاتون کے ہاتھ میں ایک پوسٹر تھا، جس پر درج تھا: ’مجھے جینے کا حق چاہیے‘۔
تصویر: DW/A. Sattar
’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘
ایک نوجوان لڑکی نے پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر درج تھا، ’میں جنسی زیادتی کے متاثرین کے لیے مارچ کرتی ہوں‘۔
تصویر: DW/A. Sattar
سکیورٹی کے باوجود پتھراؤ
اسلام آباد انتظامیہ نے دونوں ریلیوں کے شرکاء کو الگ رکھنے کا انتظام کر رکھا تھا۔ تاہم اس کے باوجود پتھراؤ کے واقعات پیش آئے، جس کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا گیا۔
تصویر: DW/A. Sattar
جماعت اسلامی کی تکریم نسواں واک
مذہبی سیاسی تنظیم جماعت اسلامی نے بھی ملک بھر میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر تکریم نسواں واک کا انعقاد کیا۔
تصویر: AFP/A. Qureshi
’قوموں کی عزت ہم سے ہے‘
اسلام آباد میں تکریم نسواں واک میں بھی بڑی تعداد میں خواتین نے شرکت کی۔ ایک پوسٹر پر درج تھا ’ہمارا دعویٰ ہے کہ خواتین کو حقوق صرف اسلام دیتا ہے‘۔
تصویر: AFP/A. Qureshi
23 تصاویر1 | 23
زنا بالجبر یا ریپ
تعزیرات پاکستان دفعہ 376 اور 375 کے مطابق کسی شخص کو ریپ کا مرتکب کہا جائے گا اگر وہ کسی خاتون (یا بچی) سے اس کی مرضی کے بغیر زبردستی، قتل یا ضرر کا خوف دلا کر زنا بالجبر کرے۔
ایسے میں عورت قانونی طور پر یہ حق رکھتی ہے وہ اس مرد کے خلاف قانونی چارہ جوئی اختیار کرے۔ جس کے نتیجے میں مرد کو سزا پاکستان کے قانون کے تحت سزا دی جائے گی۔
اس جرم کے مرتکب شخص کو سزائے موت یا کم سے کم 10 سال اور 25 سال قید کی سزا سنائی جائے گی جس کے ساتھ وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا۔
لیکن اس کے باوجود پچھلے سال فروری کے مہینے میں سسٹینیبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زنا بالجبر کے کیسز میں 200 فیصد اضافہ ہوا۔ تحقیق کے مطابق صرف لاہور میں 73 ریپ کیسز اور 5 گینگ ریپ کیسز رپورٹ کیے گئے۔
ہراسانی کے خلاف قانون
ہراسانی کے معنی پینل کوڈ کہ مطابق یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی خاتون کی عزت مجروح کرنے کی کوشش کرے، جس میں جملے کسنا، ایسی آواز منہ سے نکالنا جو خاتون کو تکلیف پہچائے یا اس کو ہراساں کرے، یا جنسی تعلقات میں الفاظ سے زبردستی کرے خواہ یہ گھر میں ہوں یا دفاتر میں، ایسا شخص سزا کا مرتکب ہوگا۔
پاکستان کے آئین کے مطابق ہراسانی کی سزا 3 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ وہ تمام خواتین جو ان حالات سے گزرتی ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے قانونی ذرائع سے انصاف طلب کریں۔