1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’آئی ايس آئی ايل‘ سے کوئی لينا دينا نہيں، القاعدہ

عاصم سليم4 فروری 2014

دہشت گرد نيٹ ورک القاعدہ نے شام ميں فعال ايک شدت پسند تنظيم اسلامی رياست برائے عراق و شام کے ساتھ لاتعلقی کا اظہار کيا ہے۔ ISIL نامی يہ تنظيم مشرقی و شمالی شام ميں اعتدال پسند باغيوں کے خلاف کارروائياں جاری رکھے ہوئے ہے۔

Syrien Islamisten Brigade
تصویر: Zac Baillie/AFP/Getty Images

نيوز ايجنسی ڈی پی اے کی مصری دارالحکومت قاہرہ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق القاعدہ کی مرکزی کمان کی جانب سے پير کے روز جاری کردہ ايک آن لائن پيغام ميں يہ دعوی کيا گيا ہے کہ شام ميں فعال تنظيم اسلامی رياست برائے عراق اور شام کے ساتھ اُس کا کوئی تعلق نہيں ہے۔ اِس بيان ميں کہا گيا ہے کہ القاعدہ پر اِس تنظيم کی کارروائيوں کی ذمہ داری عائد نہيں ہوتی۔ بيان ميں مزيد کہا گيا، ’’ہميں نہ تو اِس گروہ کے قيام کے بارے ميں مطلع کيا گيا اور نہ ہی ہم سے کسی قسم کی کوئی مشاورت کی گئی تھی۔‘‘

القاعدہ کے رہنما ايمن الظواہریتصویر: picture-alliance/ dpa

اسلامی رياست برائے عراق کے سربراہ ابو بکر البغدادی نے اپريل 2013ء ميں اس گروہ يعنی اسلامی رياست برائے عراق و شام کے قيام کا اعلان کيا تھا۔ اُس وقت کے بعد سے القاعدہ کا يہ دوسرا اِسی طرز کا پيغام ہے۔ اِس سے قبل گزشتہ برس جون ميں القاعدہ کے رہنما ايمن الظواہری نے البغدادی ہی کی جانب سے بنائی جانے والی ايک اور تنظيم النصرا فرنٹ کے ساتھ تعلق کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ يہ گروہ شام ميں اپنی کارروائياں جاری رکھے۔ الظواہری نے ’اسلامی رياست برائے عراق و شام‘ کے نام تلے اِن دونوں گروہوں کے اشتراک کو مسترد کر ديا تھا۔

واضح رہے کہ النصرا فرنٹ نے بھی اسلامی رياست برائے عراق و شام اور اُس کے مخالفين کے مابين تصادم سے مکمل لا تعلقی کا اظہار کيا تھا اور اطلاعات ہيں کہ ماضی ميں اِس گروہ کی جانب سے فريقين کے درميان جنگ بندی کی کوششيں بھی کی جا چکی ہيں۔ تاہم اتوار کے روز شمالی صوبے حلب ميں اُس حملے کے بعد، جِس ميں اسلامک فرنٹ نامی ايک اور اتحاد کے سولہ جنگجو ہلاک ہو گئے تھے، النصرا فرنٹ نے اعلان کيا کہ اسلامی رياست برائے عراق و شام کے ساتھ اختلافات دور کرنے کی تمام کوششيں ناکام ہو چکی ہيں۔

اِس حوالے سے بات کرتے ہوئے النصرا فرنٹ کے ايک کمانڈر معا الہمساوی نے نيوز ايجنسی ڈی پی اے کو بتايا، ’’آج اسلامی رياست برائے عراق و شام نے صدر بشار الاسد کے خلاف لڑنے والے تمام مسلح گروپوں کو يہ واضح پيغام دے ديا ہے کہ وہ مکالمت يا مسلم امہ کے وسيع تر مفادات ميں کوئی دلچسپی نہيں رکھتے۔‘‘

واضح رہے کہ اتوار کے روز حلب ميں کيے جانے والے حملے ميں جِس مقام کو نشانہ بنايا گيا تھا، باغی ذرائع کے مطابق وہاں شام ميں فعال متعدد مخالف دھڑوں کے مابين اختلافات دور کرنے کے سلسلے ميں مذاکرات کا عمل جاری تھا۔

شام ميں جاری خانہ جنگی انتہائی پيچدہ ہو چکی ہے اور وہاں فعال اعتدال پسند شامی باغيوں کو کئی اسلامی شدت پسند گروہوں کا سامنا ہے۔ يہ گروہ صدر اسد کا تختہ الٹ کر وہاں اسلامی رياست کے قيام کے خواہاں ہيں۔

دريں اثناء لندن ميں قائم سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس کے مطابق شام ميں مارچ 2011ء سے شروع ہونے والی حکومت مخالف تحريک ميں اب تک ايک لاکھ تيس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ قريب تين برس سے جاری اِس خانہ جنگی ميں اب تک کا سب سے خونريز مہينہ جنوری 2014ء تھا، جِس ميں کُل 5,794 ہلاکتيں رپورٹ کی گئيں۔ آبزرويٹری کے مطابق گزشتہ ماہ ہلاک ہونے والوں ميں 358 بچے اور 1,732 ايسے عام شہری بھی شامل ہيں، جِن کا لڑائی سے کوئی تعلق نہيں تھا۔

اقوام متحدہ کی ايجنسيوں کے مطابق شام کے 2.4 ملين شہری ملک سے نقل مکانی کر چکے ہيں جبکہ ملک ميں موجود قريب ساڑھے چھ ملين لوگ بے گھر ہو چکے ہيں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں