1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہبرطانیہ

’آئی ایس دلہن‘ بچوں کی اسمگلنگ کا شکار بنی تھی، وکلاء دفاع

22 نومبر 2022

شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ گروپ میں شامل ہونے کے لیے سفر کرنے والی برطانوی لڑکی شمیمہ بیگم نے اپنی شہریت چھننے کے فیصلے کو چیلنج کر دیا ہے۔

Shamima Begum
تصویر: empics/picture alliance

پیر کو شمیمہ بیگم  کے وکلاء نے برطانوی حکومت کے اُس فیصلے کو چیلنج کر دیا، جس میں برطانوی شہریت کی حامل اس لڑکی کو 'اسلامک اسٹیٹ‘ میں شمولیت کے لیے شام کا سفر اختیار کرنے کے سبب شہریت سے محروم کر دیا گیا تھا۔

 وکلاء دفاع نے اس کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ شمیمہ بیگم ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ کے انتہاپسندوں کی طرف سے ''بچوں کی اسمگلنگ‘‘ کا شکار ہوئی تھی۔ شمیمہ بیگم ان سینکڑوں یورپی باشندوں میں سے ایک ہیں، جو 2019 ء میں داعش کے انتہاپسندوں کی خود ساختہ خلافت کے خاتمے کے بعد مغربی حکومتوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئے ہیں۔

شمیمہ بیگم کے ساتھ کیا ہوا تھا؟

 2015ء میں شمیمہ بیگم 15 سال کی تھی اور مشرقی لندن میں رہتی تھی۔ تب وہ اپنی دو دوستوں، سولہ سالہ خدیجہ سلطانہ اور 15 سالہ امیرہ عباس، کے ساتھ شام چلی گئی، جہاں اُس نے آئی ایس کے ایک جنگجو کے ساتھ شادی کی تھی۔ اس نے تین بچوں کو جنم دیا تاہم ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچ سکا۔ فروری 2019ء میں ایک شامی کیمپ میں برطانوی صحافیوں نے شمیمہ بیگم کو حاملہ پایا۔

اس لڑکی نے اپنے ابتدائی انٹرویو میں اپنی صورتحال کے بارے میں کسی خاص پچھتاوے کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اس پر اُس کے ملک برطانیہ میں بے حد غم و غصہ پیدا ہوا۔ برطانوی میڈیا نے اُس کی کہانی کو خوب اُچھالا اور اُسے '' آئی ایس برائیڈ‘‘ یعنی 'اسلامک اسٹیٹ دلہن‘  کہا جانے لگا۔ ساتھ ہی اُس کی برطانوی شہریت بھی چھین لی گئی۔ شمیمہ بیگم کو داعش کے جنگجوؤں کے ساتھ شام کے کُردوں کے زیر انتظام کیمپ '' روج‘‘ میں بے وطن اور بے یار و مدد گار چھوڑ دیا گیا۔

داعش کی طرف سے بڑی تعدادز میں کم سن عورتوں اور لڑکیوں کو یورپی ممالک سے شام پہنچایا گیا تھاتصویر: Chris Huby/Le Pictorium/dpa/picture alliance

وکیل کا بیان

شمیمہ بیگم کی وکیل سامنتھا نائٹس نے شمیمہ کیس کی بھرپور وکالت کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کے ہوم آفس نے، جس عمل کے ذریعے بیگم کی شہریت ختم کرنے کا فیصلہ کیا، وہ ''غیر معمولی اور زیادہ عجلت میں‘‘ کیا گیا ہے۔ سامنتھا نائٹس کا کہنا ہے کہ حکام اس بات کی تحقیقات کرنے اور اس بات کا تعین کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ آیا شمیمہ کن حالات میں شام پہنچی تھی اور نیز یہ کہ  وہ ''اسمگلنگ کا شکار ہونے والی ایک بچی‘‘ تھی۔

واپس گھر جانا ہے، جہادیوں کی ’روسی بیواؤں‘ کی پوٹن سے التجا

پیر 21 نومبر کو اسپیشل امیگریشن اپیل کمیشن (SIAC) میں شمیمہ کیس کی  سماعت گزشتہ سال سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ہو رہی ہے، جس میں اسے ہوم آفس یا وزارت داخلہ کے خلاف شہریت کا مقدمہ لڑنے کے لیے برطانیہ میں داخل ہونے کی اجازت سے انکار کر دیا گیا تھا۔

شمیمہ بیگم کی وکیل نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا،''دراصل یہ کیس ایک 15 سالہ برطانوی بچی کا کیس ہے، جسے اُس کے دوستوں کے ہمراہ آئی ایس کی پُرعزم اور مؤثر پروپیگینڈا مشین نے اپنی چال کا نشانہ بنایا۔ ‘‘

روسی مائیں داعش میں شامل اپنی بیٹیوں کی تلاش میں

 وکیل سامنتھا نائٹس کا مزید کہنا تھا،''ایسے مضبوط شواہد موجود تھے کہ اسے جنسی استحصال اور ایک بالغ مرد سے شادی کے مقاصد کے لیے شام منتقل کیا گیا، اُسے بھرتی کیا گیا اور وہاں پناہ دی گئی۔‘‘

اس کیس کے بارے میں شائع ہونے والی کتاب

رواں سال کے شروع میں ایک صحافی رچرڈ کرباج نے ایک کتاب شائع کی، جس میں اُس نے انکشاف کیا کہ شمیمہ کو، جو دریں اثناء 23 برس کی ہو چُکی ہے، بمعہ اُس کے دو دوستوں کے، ایک شامی شخص محمد الرشید نے شام پہنچایا تھا۔ مزید یہ کہ یہ شخص کینیڈا کی سکیورٹی سروسز کو معلومات  فراہم کر رہا تھا۔ محمد الرشید پر الزام ہے کہ وہ آئی ایس کے اسمگلنگ کے ایک وسیع نیٹ ورک کی شاخ کا انچارج تھا۔

شامی صدر بشارالاسد کے متعدد فوجیوں کی بیویوں اور بچوں کو انسانی پنجرے میں بند کیا گیا تصویر: Balkis Press/abaca/picture alliance

دریں اثناء شمیمہ بیگم کے ایک دوسرے وکیل تسنیم آکنجے نے پیر کو عدالت کی سماعت سے پہلے ایک بیان میں کہا،'' اسمگلنگ کی اصطلاح کی تعریف مکمل طور پر واضح ہے۔‘‘

دستاویزی فلم

اپنے ابتدائی تبصروں کے باوجود بیگم نے اپنے اعمال پر پشیمانی اور آئی ایس کے متاثرین کے لیے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ پچھلے سال ایک دستاویزی فلم میں اس نے کہا کہ شام پہنچنے پر اسے فوری طور پر احساس ہوا کہ داعش خود ساختہ خلافت میں شامل اراکین کی تعداد بڑھانے کے لیے ''لوگوں کو پھنساتی‘‘ ہے اور اس طرح  وہ اپنی ویڈیوز (پروپیگنڈا) کو متاثر کن بنا کر پیش کرتی ہے۔

جہادی خواتین کی ’ الخنساء بریگیڈ‘ کا منشور

ایک اندازے کے مطابق تقریباً 900 افراد نے برطانیہ سے شام اور عراق کا سفر کر کے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان میں سے تقریباً 150 کے بارے میں خیال ہے کہ ان کی شہریت چھین لی گئی ہے۔

انسانی حقوق کے گروپ Reprieve نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس وقت 20 سے 25 برطانوی خاندان، جن میں 36 بچے بھی شامل ہیں، کردوں کے زیر کنٹرول کیمپوں میں اب بھی موجود ہیں، جہاں آئی ایس کے جنگجوؤں کے مشتبہ رشتہ داروں کو رکھا گیا ہے۔ 

نوجوان مسلم لڑکیوں کی آئی ایس میں شمولیت کا بڑھتا ہوا رجحان

واضح رہے کہ دیگر یورپی ممالک بھی اپنے شہریوں کی شام سے واپسی کے معاملات طے کرنے کے طریقہ کار کی تلاش میں ہیں۔

ک م / ا ا (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں