1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبنگلہ دیش

آئی ایم ایف بنگلہ دیش کی مدد کو تیار

6 اگست 2022

آئی ایم ایف بنگلہ دیش کی مدد کو تیارپاکستان اور سری لنکا کے بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیائی کا تیسرا ملک بن گیا ہے، جس نے معیشت کو سہارا دینے کی خاطر رواں برس بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے رابطہ کیا ہے۔

Internationaler Währungsfonds Tür Logo Symbolbild
تصویر: picture-alliance/dpa

ایسی اطلاعات ہیں کہ ڈھاکہ حکومت مالی مشکلات سے نمٹنے کی خاطر ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے بھی مدد چاہتی ہے۔ حالیہ ماہ کے دوران بنگلہ دیش کی معیشت سنگین مسائل کا شکار نظر آئی۔ مہنگائی، افراط زر اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے عوام سراپا احتجاج بن چلے ہیں۔

اس صورتحال پر قابو پانے کی خاطر وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے مبینہ طور پر ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے ایک ایک بلین ڈالر کا قرض لینے کی درخواست جمع کرا دی ہے۔

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب گزشتہ ہفتے ہی بنگلہ دیش کے میڈیا میں یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ڈھاکہ حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ساڑھے چار بلین ڈالر کا پیکج لینے کی کوشش کی۔

آئی ایم ایف کے مطابق بنگلہ دیش اس مالیاتی ادارے کے اس خصوصی فنڈ سے استفادہ کرنا چاہتا ہے، جس کا مقصد ایسی ریاستوں کو مالی مدد فراہم کرنا ہے، جو کلائمٹ چینج اور ملکی معیشت میں پائیداری کی خواہاں ہیں۔

واشنگٹن میں واقع آئی ایم ایف کے صدر دفتر کی طرف سے تصدیق کر دی گئی ہے کہ یہ مالیاتی ادارہ بنگلہ دیش کی مالیاتی مشکلات دور کرنے کے لیے تیار ہے۔ ساتھ ہی کہا گیا کہ آئی ایم ایف بنگلہ دیش کو درپیش طویل المدتی چیلنجوں سے نمٹنے میں بھی مدد فراہم کرے گا۔

اگرچہ بظاہر ڈھاکہ حکومت کی یہ مالی درخواست منظور ہو چکی ہے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ موجودہ اقتصادی مشکلات سے نمٹنے کی خاطر اس جنوبی ایشائی ریاست کو کتنی مالیت کا پیکج مل سکے گا۔

بنگلہ دیش کا مسئلہ کیا ہے؟

آئی ایم ایف سے وابستہ سابق ماہر اقتصادیات احسن منصور نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''بنگلہ دیش کو بیل آؤٹ پیکج نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ حکومت کی طرف سے اٹھایا جانے والا ایک احتیاطی قدم ہے۔‘‘

ڈھاکہ میں واقع پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ منصور کے مطابق اگر بنگلہ دیش کی معیشت میں بہتری نہیں ہوتی تو حکومت ٹیکس ریونیوز کو درآمدات  محفوظ بنانے پر خرچ کر سکتی ہے، جس سے حکومتی اخراجات کے لیے مختص رقوم میں کمی ہو سکتی ہے۔

منصور کے مطابق موجودہ حالات میں حکومتی اخراجات دوگنا ہو چکے ہیں اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں ڈھاکہ حکومت کو درپیش مسائل دوچند ہو جائیں گے۔

ایک سو ساٹھ ملین آبادی والا ملک بنگلہ دیش دنیا کے ان ممالک میں شمار کیا جاتا تھا، جن کی معیشت میں تیزی سے ترقی ہو رہی تھی۔ تاہم یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی مالیاتی مسائل نے اس ملک کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔

موجودہ حالات کیسے ہیں؟

مہنگائی، افراط زر کی شرح میں اضافہ اور اقتصادی غیر یقینی کے ساتھ ساتھ اس وقت بنگلہ دیش کو توانائی کے بحران کا سامنا بھی ہے۔ ڈیزل اور گیس کی کمی کے باعث ملک میں لوڈ شیڈنگ ایک مسئلہ بن چکی ہے۔ کئی علاقوں میں تیرہ تیرہ گھنٹے بجلی نہیں ہوتی۔

حکام کے مطابق ڈیزل سے چلنے والے پاور پلانٹس وقتی طور پر بند ہیں جبکہ گیس سے چلنے والے پلانٹس پر دباؤ بڑھ چکا ہے۔ حکومت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ بچت کریں تاکہ حکومت اس بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو سکے۔

حکومت نے ملک میں قائم ہزاروں مساجد سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ ایئر کنڈیشنز کا استعمال کم کر دیں تاکہ عوام کو بجلی کی فراہمی میں مشکلات نہ آئیں۔

اس لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ملک کی صنعت بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے عوامی مظاہرے بھی شروع ہو چکے ہیں۔

آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر حکومتی مؤقف

عالمی مالیاتی فنڈ کی طرف سے ملنے والے قرضوں کے عوض حکومتوں سے عمومی طور پر سخت مطالبات کیے جاتے ہیں۔ مںصور کے مطابق حکومت زیادہ سخت مطالبے منظور نہیں کر سکتی کیونکہ اس کا ایک سیاسی نقصان بھی ہو گا۔

منصور نے کہا کہ بالخصوص فیول پر دی جانے والی مراعات کو ختم کرنے سے حکومت غیر مقبول ہو جائے گی۔ اس ماہر اقتصادیات نے البتہ کہا کہ آئی ایم ایف سے مطالبات منوانا کوئی آسان کام بھی نہیں ہے۔

دریں اثنا ملکی وزیر خزانہ مصفطیٰ کمال نے واضح کیا ہے کہ ڈھاکہ حکومت آئی ایم ایف سے اسی وقت قرضہ لے گی، جب شرائط بہتر ہوں گی۔ انہوں نے اصرار کیا کہ ملک کی مائیکرو اکنامک صورتحال اب بھی کنٹرول میں ہے، اس لیے آئی ایم ایف سخت شرائط نہیں رکھے گا۔

زبیر احمد (ع ب، ع ت)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں