1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی سیف میں شامل سولہ ملکوں کا مشاورتی اجلاس

11 مئی 2010

جرمن دارالحکومت برلن میں آج ان 16 ملکوں کے وزرائے دفاع اور چیفس آف جنرل سٹاف کا ایک مشاورتی اجلاس ہو رہا ہے، جنہوں نے بین الاقوامی حفا‌ظتی فوج ISAF میں شمولیت کے لئے اپنے مسلح دستے افغانستان بھیج رکھے ہیں۔

افغانستان متعینہ آئی سیف دستوں میں شامل جرمن فوجیتصویر: AP

اس کانفرنس کے میزبان اور وفاقی جرمن وزیر دفاع کارل تھیوڈور سوگٹن برگ کے بقول اس مشاورت کا مقصد یہ طے کرنا ہے کہ ان ملکوں کی افغانستان میں آئندہ فوجی حکمت عملی کیا ہو گی۔

سو گٹن برگ نے آج برلن میں اس اجلاس کے آغاز سے قبل کہا کہ مقصد بین الاقوامی برادری کو یہ اشارہ دینا ہے کہ یہ سولہ ریاستیں افغانستان میں اپنے مشترکہ اور طے شدہ اہداف کے حصول کے لئے آخر تک بھرپور کوششیں کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔

سلامتی امور میں مدد کرنے والی اس بین الاقوامی حفاظتی فوج ISAF کی شمالی افغانستان میں کمان جرمنی کے پاس ہے۔ وفاقی جرمن پارلیمان نے اپنے ایک اکثریتی فیصلے کے تحت اسی سال فروری میں اس فوج میں شامل جرمن دستوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد مزید بڑھا کر 5350 کر دی تھی۔

برلن میں آج بعد دوپہر شروع ہونے والے اس بین الااقوامی عسکری مشاورتی اجلاس میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو، یورپی یونین اور خود افغانستان کے نمائندے بھی حصہ لے رہے ہیں۔

شمالی افغانستان میں آئی سیف دستوں کی کمان جرمنی کے پاس ہے

دریں اثنا وفاقی جرمن پارلیمان کی انسانی حقوق سے متعلق کمیٹی کے ماحول پسندوں کی گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے سربراہ ٹام کوئنگز نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں آج منگل کو مطالبہ کیا کہ شمالی افغانستان میں سول نوعیت کے امدادی منصوبوں کے لئے زیادہ سے زیادہ کوششیں کی جانا چاہییں۔

ماضی میں افغانستان کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب کے فرائض انجام دیتے رہنے والے Tom Koenigs نے کہا کہ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ افغانستان میں سلامتی کے حصول کو یقینی بنانا مستقبل میں اور بھی مشکل ہو جائے گا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی مد نظر رکھی جانا چاہیے کہ شمالی افغانستان میں شدت پسندی سے متاثرہ صرف آٹھ اضلاع کے مقابلے میں 123 اضلاع ایسے ہیں جہاں شدت پسندی امن کے لئے کوئی بڑا خطرہ نہیں رہی، اور جہاں زیادہ سے زیادہ سول امداد پہنچ سکتی ہے جو لازمی طور پر پہنچنی چاہیے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں