1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی سی سی ک‍ا متنازعہ فیصلے پر نظر ثانی کا ارادہ

20 اپریل 2011

بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے کہا ہے کہ وہ 2015ء اور 2019ء کے عالمی کپ مقابلوں میں صرف دس ٹیموں کی شرکت سے متعلق اپنے متنازعہ فیصلے پر نظر ثانی کرے گی۔

بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے صدر شرد پوارتصویر: AP

بین الاقوامی کرکٹ کونسل آئی سی سی نے منگل کے روز کہا کہ کونسل کے صدر شرد پوار نے اس ادارے سے کہا ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے، جس کے تحت آئندہ دونوں عالمی کپ مقابلوں میں آئی سی سی کے مکمل رکن ممالک ہی شرکت کر سکیں گے۔ رواں ماہ کے آغاز پر ہی ممبئی میں ہونے والے آئی سی سی کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس کے ایگزیکٹو بورڈ نے فیصلہ کیا تھا کہ کم ازکم آئندہ دو کرکٹ ورلڈ کپ مقابلوں میں صرف دس دس ٹیمیں ہی شرکت کریں گی۔

تاہم آئی سی سی کے اس اعلان کے بعد اسے کئی اطراف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ شاید اسی دباؤ کے نتیجے میں منگل کو آئی سی سی کے صدر شرد پوار کی طرف سے جاری کی گئی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ انہوں نے ایگزیکٹو بورڈ سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرے، ’میں اس مسئلے پر لوگوں کے خیالات سمجھ سکتا ہوں، اسی لیے میں نے بورڈ سے کہا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے‘۔

کرکٹ ورلڈ کپ 2011ء کی فاتح ٹیم بھارت رہیتصویر: UNI

شرد پوار نے کہا ہے کہ آئی سی سی اس معاملے پر مکمل غور کرنے کے بعد بہترین فیصلہ کرے گی۔ آئی سی سی کا ایگزیکٹو بورڈ جون کے اواخر میں ہانگ کانگ میں منعقد کی جا رہی اپنی ایک سمٹ میں اس معاملے پر دوبارہ غور کرے گا۔

کرکٹ ورلڈ کپ 2011ء میں کل چودہ ٹیموں نے شرکت کی تھی۔ اس ٹورنامنٹ کی طوالت پر کئی ماہرین نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ غیر اہم ٹیموں کی وجہ سے یہ مقابلے نہ صرف طویل ہو گئے بلکہ اس وجہ سے تماشائیوں کی توجہ بھی بٹ گئی۔ اسی تنقید کے بعد آئی سی سی نے آئندہ عالمی کپ مقابلوں میں دس دس ٹیمیں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

آئرلینڈ کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو وارَن ڈیو ٹروم نے آئی سی سی کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر تیار ہے۔ تاہم دوسری طرف کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا مشکل ہی ہے کہ آئی سی سی اپنے کیے ہوئے کسی فیصلے کو واپس لے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں