آئی فون بارہ سے شعاعوں کا اخراج، کئی یورپی ممالک کے اقدامات
14 ستمبر 2023
امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کے تیار کردہ آئی فون بارہ سے ریڈیو فریکوئنسی توانائی کے مبینہ غیر معمولی اخراج سے متعلق حالیہ فرانسیسی فیصلے کے بعد کئی یورپی ممالک نے اس حوالے سے احتیاطی اقدامات کا اعلان کر دیا ہے۔
اشتہار
ایپل کے تیار کردہ آئی فون دنیا بھر میں بہت مقبول ہیں۔ ان موبائل فونز کے ایک ماڈل آئی فون بارہ کے بارے میں فرانس کی نیشنل فریکوئنسی ایجنسی نے منگل 12 ستمبر کے روز ایپل کو ہدایت کر دی تھی کہ وہ فرانس میں اس ماڈل کے اپنے اسمارٹ فون بیچنا بند کر دے۔
قانونی حد سے زیادہ ایس اے آر
اس ہدایت کی وجہ فرانسیسی حکام کی طرف سے کیے جانے والے دو ٹیسٹوں کے نتائج بنے تھے۔
ان ٹیسٹوں سے بظاہر یہ ثابت ہوا تھا کہ آئی فون بارہ سے شعاعوں کی صورت میں خارج ہونے والی توانائی اس زیادہ سے زیادہ سطح سے بھی متجاوز تھی، جس کی یورپ میں قانوناﹰ اجازت ہے۔
شعاعوں کے اخراج کا یہ پیمانہ Specific Absorption Rate یا ایس اے آر کہلاتا ہے اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ کسی موبائل فون کے استعمال سے کسی صارف کے جسم میں اس فون سے ریڈیو فریکوئنسی کے باعث خارج ہونے والی کتنی توانائی جذب ہو جاتی ہے۔
پیرس میں حکام کے مطابق آئی فون بارہ کی SAR شرح زیادہ سے زیادہ قانونی حد سے زیادہ پائی گئی اور اس لیے ایپل کو فرانس میں اس ماڈل کے اسمارٹ فون فروخت کرنے سے روک دیا گیا۔
فرانسیسی فیصلے پر جرمنی کا ردعمل
فرانسیسی حکام کے آئی فون بارہ کی فروخت سے متعلق فیصلے کے بعد اس پر کئی یورپی ممالک میں ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ جرمنی میں اس شعبے کے نگران ملکی ادارے فیڈرل نیٹ ورک ایجنسی نے کہا ہے کہ وہ بھی اس بارے میں خدشات کا جائزہ لی گی کہ آئی فون بارہ سے خارج ہونے والی ریڈیو فریکوئنسی انرجی کی شرح ایس اے آر کی زیادہ سے زیادہ قانونی حد سے بھی زیادہ ہے۔
جمعرات 14 ستمبر کو اس جرمن ادارے کی طرف سے برلن میں کہا گیا کہ اگر فرانس میں اس بارے میں کی جانے والی چھان بین کے مزید فیصلہ کن اور واضح نتائج سامنے آئے، تو یہ معاملہ دراصل پوری یورپی یونین کی سطح پر یکساں نوعیت کے ایک متفقہ فیصلے کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔
کیا ایپل کی یہ پراڈکٹ، آئی فون کی طرح سب کچھ بدل دے گی؟
04:48
اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس آئی فون کی دیگر یورپی ممالک میں فروخت بھی ممنوع قرار دی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی جرمن حکام کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ آئی فون بارہ سے خارج ہونے والی ریڈیائی توانائی سے متعلق اس شعبے کے فرانسیسی محکمے کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔
اشتہار
بیلجیم کا اعلان
اسی دوران بیلجیم نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اپیل کے اس اسمارٹ فون سے خارج ہونے والی توانائی کی شرح اور اس کے انسانی صحت پر ممکنہ منفی اثرات کا جائزہ لے گا۔
اس سلسلے میں بیلجیم کے ڈیجیٹلائزیشن کے شعبے کے اسٹیٹ سیکرٹری میتھیو مشیل نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو ای میل کیے گئے ایک بیان میں کہا، ''یہ میری ذمے داری ہے کہ میں تمام شہریوں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بناؤں۔ میں نے بیلجیم کی متعلقہ ریگولیٹری اتھارٹی کو اس بارے میں تفصیلی تجزیے کے لیے کہہ دیا ہے کہ ایپل کا یہ فون ممکنہ طور پر صارفین کے لیے کس نوعیت کے خطرات کا سبب بن سکتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بیلجیم کے ریگولیٹر نہ صرف ایپل کے تمام اسمارٹ فونز بلکہ دیگر تیار کنندہ اداروں کے موبائل فونز کی ایس اے آر شرح کا بھی جائزہ لیں گے۔
ایپل ایسی پہلی کمپنی، جس کے شیئرز کی مالیت تین ٹریلین ڈالرز
کورونا وائرس کی وبا کے دوران ایپل کمپنی کے آئی فونز کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ہوا، جس کے باعث اس کے شیئرز نے ایک نیا سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ مائیکروسافٹ، ایلفابیٹ اور ایمازون تو اس مقابلے میں کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہے۔
تصویر: APPLE INC/REUTERS
ایک نیا سنگ میل
اٹھارہ ماہ قبل ایپل پہلی ایسی امریکی کمپنی بنی، جس کے شیئرز کی مالیت دو ٹریلین ڈالرز ہوئی تھی۔ انتہائی مختصر وقت میں ہی اس کے شئیرز کی مالیت اب تین ٹریلین ڈالرز ہو گئی ہے۔ کووڈ انیس کی عالمی وبا میں اس کمپنی کی مصنوعات بالخصوص آئی فونز کی فروخت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا، وجہ، لوگ اپنے پیاروں کے ساتھ ورچوئل رابطے میں رہنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Kataoka
کوئی ثانی نہیں دور تک
امریکی کمپنی ایپل کی چھلانگ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکا، حتیٰ کہ اس کی ہم وطن کمپنیاں مائیکروسافٹ، ایلفابیٹ (گوگل) اور ایمازون تو اس دوڑ میں کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کمپنیوں نے بھی کووڈ انیس کی عالمی وبا میں خوب کمائی کی۔ ان کمپنیوں کے مالی اثاثوں کی قدر بالتریب ڈھائی ٹریلین، دو ٹریلین اور ایک اعشاریہ سات پانچ ٹریلین ڈالرز بنتی ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moon
نیا ارب پتی
ایپل کمپنی کے مالی اثاثوں میں اس قدر اضافے کی وجہ سے اس کمپنی کے سی ای او ٹِم کُک بھی ارب پتی افراد کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے سن 2011 میں یہ عہدہ سنبھالا تھا، تب اس کمپنی کے اثاثوں کی مالیت 350 بلین تھی۔ تب کئی حلقوں کو شک تھا کہ آیا وہ اس کمپنی کو سنبھال بھی سکیں گے؟ کک نے اپنی زیادہ تر دولت چیرٹی میں دینے کا عہد کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/T. Avelar
گیراج سے عالمی افق تک
ایپل کمپنی کا پہلا دفتر اس کے بانی اسٹیو جابز کے گھر کا ایک گیراج تھا۔ اسٹیو جابز نے اپنے ہائی سکول کے زمانے کے دوست اسٹیو ووزنیئک کے ساتھ مل کر سن 1974ء میں اس کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ پرسنل کمپیوٹر کے حوالے سے یہ پہلی کامیاب کمپنی ثابت ہوئی۔ چار سال بعد یعنی 1980ء میں ایپل نے عوام کے لیے اپنی مصنوعات مارکیٹ میں متعارف کرائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Apple
تہلکہ خیز پراڈکٹ
میکنٹوش (میک) ایپل کی تہلکہ خیز پراڈکٹ ثابت ہوئی، اَسّی کی دہائی میں گرافیکل یوزر انٹرفیس کے ساتھ یہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک بڑی پیشرفت قرار دی گئی۔ تاہم محدود میموری اور ایک کھلونے کی طرح نظر آنے والا یہ کمپیوٹر مارکیٹ میں زیادہ جگہ نہ بنا سکا۔ اس ناکامی پر 1985ء میں جابز کو اس کمپنی سے الگ ہونا پڑ گیا۔
تصویر: imago/UPI Photo
اسٹیو جابز کی واپسی
سن انیس سو ستانوے میں اپیل کمپنی دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ چکی تھی، تب ایک مشکل وقت میں اسٹیو جابز ایک مرتبہ پھر اس کمپنی سے وابستہ ہوئے۔ اس کے بعد ایپل کمپنی نے ایک نیا جنم لیا۔ جابز کی تخلیقات آئی پوڈ اور پھر آئی فون نے انسان کے دیکھنے اور سوچنے کا طریقہ ہی بدل دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/P. Sakuma
آئی فون کی دنیا
ایپل کمپنی کی سب سے اہم اور کامیاب ترین پراڈکٹ آئی فون ثابت ہوئی۔ ایسا پہلا فون، جس میں میوزک بھی بجایا جا سکتا تھا۔ یہ بات شاید اب آپ کو عجیب لگے کیونکہ اب تو میوزک کے بغیر کسی سمارٹ فون کا تصور بھی ممکن نہیں۔
تصویر: AP
ویب براؤزنگ کی سہولت
نہ صرف میوزک بلکہ یہ ایک ایسا فون تھا، جس میں ویب براؤزنگ کی سہولت کے علاوہ ای میل کی ایپس بھی متعارف کرائی گئیں۔ ایک چھوٹی سی ڈیوائس پر سبھی کچھ دستیاب، یہ تھا پہلا آئی فون۔ سن 2007ء میں اس ٹیکنالوجی نے نوکیا، موٹرولا اور بلیک بیری جیسی بڑی موبائل کمپنیوں کو برباد کر دیا۔
تصویر: Justin Sullivan/Getty Images
کہانی ابھی باقی ہے
ایپل کمپنی کمیونیکشن کی دنیا میں مزید اختراعات کا منصوبہ رکھتی ہے۔ نئی اور جدید ٹیکنالوجی کو مزید بہتر اور تیز بنانے کی خاطر ایپل بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہی ہے جبکہ اپنی سروسز کو مزید بہتر اور کارآمد بنانے کی کوششوں میں بھی جتی ہوئی ہے۔
تصویر: Brooks Kraft/Apple Inc/REUTERS
9 تصاویر1 | 9
نیدرلینڈز اور اٹلی کے موقف
فرانس، جرمنی اور بیلجیم کے بعد جرمنی کے ہمسایہ ملک نیدرلینڈز نے بھی کہا ہے کہ اس نے آئی فون بارہ سے ریڈیو فریکوئنسی توانائی کے اخراج کی سطح سے متعلق اپنے متعلقہ محکمے کو چھان بین کے لیے کہہ دیا ہے۔
ڈچ ڈیجیٹل ریگولیٹرز نے کہا کہ اہم ترین بات یہ ہے کہ ایسی مصنوعات سے صارفین کو کسی بھی طرح کا کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے اس بارے میں آئی فون کے تیار کنندہ ادارے ایپل سے بھی وضاحت طلب کی جائے گی۔
ڈچ حکام کے برعکس اٹلی میں ٹیلی کمیونیکیشن کی وزارت کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ وہ فی الحال کوئی کارروائی تو نہیں کر رہی مگر اس پوری صورت حال پر قریب سے نظر رکھے ہوئے ہے۔
SMS کی 25 ویں سالگرہ
25 برس قبل آج ہی کے دن یعنی تین دسمبر 1992 کو اولین ایس ایم ایس بھیجا گیا تھا۔ موبائل کمپنیوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے اربوں روپے کمائے۔ لاتعداد انٹرنیٹ ایپلیکیشنز کے باوجود مختصر SMS آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/Maule/Fotogramma/ROPI
ایس ایم ایس کی دنیا
تین دسمبر 1992ء کو 22 سالہ سافٹ ویئر انجینیئر نائل پاپورتھ نے دنیا کا پہلا ایس ایم ایس پیغام اپنے ساتھی رچرڈ جاروِس کو ارسال کیا تھا۔ نائل پاپورتھ ووڈا فون کے لیے شارٹ میسیج سروس کی تیاری پر کام کر رہے تھے۔
تصویر: DW/Brunsmann
’’میری کرسمس‘‘
25 سال پہلے کے سیل فون بھی ایس ایم ایس بھیج یا وصول نہیں کرسکتے تھے۔ لہٰذا پہلے ایس ایم ایس کو موبائل فون سے نہیں بلکہ کمپیوٹر سے بھیجا گیا تھا۔ ایس ایم ایس سسٹم کے پروٹوٹائپ کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ووڈا فون کمپنی کے تکنیکی ماہرین کا پہلا ایم ایم ایس تھا، ’’میری کرسمس‘‘.
تصویر: Fotolia/Pavel Ignatov
160 کریکٹرز کی حد
ایس ایم ایس پوسٹ کارڈ وغیرہ پر پیغامات لکھنے کے لیے 160 حروف یا اس سے بھی کمی جگہ ہوتی تھی اسے باعث ایس ایم ایس کے لیے بھی 160 حروف کی حد مقرر کی گئی تھی۔
تصویر: DW
ٹیلیفون کمپنیوں کی چاندی
1990ء کے وسط میں، ایس ایم ایس تیزی سے مقبول ہوا اور اس کے ساتھ، ٹیلی فون کمپنیوں نے بڑا منافع حاصل کیا۔ 1996ء میں جرمنی میں 10 ملین ایس ایم ایس بھیجے گئے تھے۔ 2012 میں، ان کی تعداد 59 ارب تک پہنچ گئی۔ جرمنی میں، ایس ایم ایس بھیجنے کے 39 سینٹ تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
اسمارٹ فونز
اسمارٹ فون مارکیٹ میں آنے کے بعد، ایس ایم ایس نے کی مقبولیت میں کمی ہونے لگی۔ ایسا 2009 میں شروع ہوا۔ ٹوئیٹر، فیس بک، زوم، واٹس ایپ جیسے مفت پیغامات بھیجنے والی ایپلیکیشنز زیادہ سے زیادہ مقبول ہو رہی ہیں۔ مگر اس سب کے باجود ایس ایم ایس کا وجود اب بھی قائم ہے۔
تصویر: Fotolia/bloomua
اعتماد کا رابطہ
ایس ایم ایس ابھی بھی جرمنی میں مقبول ہے۔ وفاقی مواصلات ایجنسی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2016ء کے دوران 12.7 بلین ایس ایم ایس پیغامات موبائل فونز سے بھیجے گئے۔ جرمنی میں اب بھی میل باکس کے پیغامات اور آن لائن بینکنگ سے متعلق بہت سے اہم کوڈ ایس ایم ایس کے ذریعہ ہی بھیجے جاتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/Aaron Amat
6 تصاویر1 | 6
ایپل کی تردیدی وضاحت
فرانسیسی حکام کے فیصلے کے بعد ایپل نے کہا ہے کہ اس کی طرف سے 2020ء میں متعارف کرایا گیا آئی فون بارہ بھی کئی بین الاقوامی اداروں کی طرف سے باقاعدہ معائنوں ور تجزیوں کے نتیجے میں مستند قرار دیے جانے کے بعد لانچ کیا گیا تھا۔
ایپل کے مطابق اس اسمارٹ فون سے خارج ہونے والی شعاعیں مروجہ معیارات سے تجاوز نہیں کرتیں اور یہ امریکی کمپنی فرانسیسی حکام کی طرف سے کیے جانے والے دعووں سے اتفاق نہیں کرتی۔
گزشتہ دو عشروں کے دوران محققین نے اس بارے میں کئی تحقیقی مطالعاتی منصوبوں پر کام کیا ہے، جن کا مقصد موبائل اور سمارٹ فونز کے انسانی صحت کے لیے ممکنہ خطرات کا جائزہ لینا تھا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق کسی بھی موبائل فون کے استعمال کے انسانی صحت پر کسی بھی طرح کے ممکنہ منفی اثرات کی آج تک تصدیق نہیں ہو سکی۔
م م / ش ر (روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)
ایپل کے چالیس برس: ایک گیراج سے دنیا کے ہر کونے تک
چالیس برس پہلے امریکا کے تین نوجوانوں نے ایپل کمپیوٹر کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ ایک گیراج سے شروع ہونے والی یہ کمپنی آج دنیا کی مہنگی ترین کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ اس کی تاریخ پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Apple
آغاز ایک گیراج سے
اس کا آغاز 1976ء میں اکیس سالہ سٹیو جابز (دائیں جانب) کے والدین کے گیراج سے کیلیفورنیا میں ہوا۔ سٹیو جابز نے اپنے دوستوں سٹیو وسنیاک(بائیں جانب) اور رونالڈ وین کے ساتھ ایپل کمپیوٹر کمپنی کی بنیاد رکھی۔ وین نے گیارہ دن بعد ہی اس کمپنی کا ساتھ چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنا حصہ تئیس سو امریکی ڈالر میں فروخت کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Apple
ٹیپ ریکارڈر کی تکنیک
سب سے پہلی پراڈکٹ کا نام ایپل ون رکھا گیا۔ یہ کمپیوٹر بنیادی طور پر ایک سرکٹ بورڈ، ایک کی بورڈ اور ایک مونیٹر پر مشتمل تھا۔ سی پی یو نما ایک ڈبہ علیحدہ خریدنا پڑتا تھا۔ اس میں ٹیپ ریکارڈر کی تکنیک استعمال کی گئی تھی۔ آوازوں کو محفوظ کیا جا سکتا تھا اور پھر اپ لوڈ بھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Ben Margot
دو سو سے دو ملین تک
1977ء میں ایپل ٹو مارکیٹ میں لایا گیا۔ ایپل ون کے صرف دو سو سیٹ فروخت ہوئے۔ ہر سیٹ کی قیمت 666 امریکی ڈالر تھی۔ یہ آمدنی ناکافی تھی۔ اسی سال ایپل کو ایک کارپوریشن میں تبدیل کر دیا گیا۔ امریکی تاجر مائیک مارکولا نے ڈھائی لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور کمپنی کے چھبیس فیصد حصص کے مالک بن گئے۔ انیس سو اکیاسی سے انیس سو تریاسی تک وہ کمپنی کے سربراہ رہے۔ اس دوران ایپل ٹو کے دو ملین کمپیوٹر فروخت ہوئے۔
تصویر: cc-by-2.0 Marcin Wichary
اسٹیو جابز کی بے دخلی
1983ء میں جان سکیلی (دائیں جانب) ایپل کے نئے سربراہ بنے۔ انہوں نے سٹیو جابز(بائیں جانب) کے ساتھ مل کر ماؤس والا پرسنل کمپیوٹر ’لیزا‘ پیش کیا۔ 1985ء میں دونوں کے مابین اختلافات پیدا ہوئے۔ جابز نے کمپنی چھوڑ دی اور نئی کمپیوٹر کمپنی نیکسٹ (NeXT) کی بنیاد رکھی۔
تصویر: Imago/United Archives International
ایپل بحران کا شکار
اسّی کی دہائی کے اواخر میں پہلا پورٹیبل کمپیوٹر پیش کیا گیا۔ 1990ء میں حریف کمپنی مائیکروسافٹ کی وجہ سے ایپل شدید دباؤ کا شکار ہو گئی۔ 1993ء میں ایپل کمپنی خسارے میں چلی گئی اور جان سکیلی کو جانا پڑا۔ 1996ء میں ایک بہتر آپریٹنگ سسٹم کی تلاش میں ایپل نے چار سو ملین کے عوض نیکسٹ کو خرید لیا۔ اس طرح سٹیو جابز کی واپسی ہوئی اور ایک سال بعد وہ ایپل کے سربراہ بن گئے۔
تصویر: Delsener
شاندار واپسی
1998ء میں ایپل نے نئے ڈیزائن کے ساتھ آئی میک لانچ کر دیا۔ ایپل کی اس کامیاب کمرشل واپسی نے مارکیٹ میں ایک ہلچل پیدا کر دی تھی۔ میک سے پہلے ’آئی‘ کا مطلب ’انٹرنیٹ، انفرادی، انفارم اور انسپائر پیش کیا گیا۔ یہ ایپل کی متعدد مصنوعات کی شناخت بنا۔
تصویر: Imago/UPI Photo
ایک نسل کی آواز
2001ء میں جان روبن سٹائن نے ایپل کے سی ای او جابز کو ایک اعشاریہ آٹھ انچ کی ڈسک کے ساتھ ایک ایم پی تھری پلیئر کا خیال پیش کیا۔ جابز نے فوری طور پر گرین سگنل دے دیا۔ اس کے بعد آئی پوڈ وجود میں آیا اور پھر آئی ٹیونز میوزک اسٹور۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ مصنوعات مارکیٹ پر چھا گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آئی فون نے مغربی دنیا فتح کر لی
2007ء میں ایپل نے آئی فون اور ایپل ٹی وی لانچ کر دیا۔ ایپل کپمنی پرسنل کمپیوٹرز کی مارکیٹ سے کہیں آگے جانا چاہتی تھی، یوں ’ایپل کمپیوٹر‘ کو ’ایپل انک‘ یعنی ایپل انکارپوریٹڈ کا نام دے دیا گیا۔ ٹچ سکرین والا فون دھماکہ خیز ثابت ہوا۔ 2015ء تک دنیا بھر میں 900 ملین آئی فون فروخت کیے جا چکے تھے۔
تصویر: picture alliance/AP Images/P. Sakuma
ایک عہد کا خاتمہ
2010ء میں سٹیو جابز نے اپنی کمپنی کی تازہ ترین ایجاد آئی پیڈ مارکیٹ میں پیش کی۔ ایک برس بعد طبی مسائل کی وجہ سے جابز نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ٹِم کُک نئے سربراہ بنے۔ پانچ اکتوبر 2011ء کو کینسر کی وجہ سے سٹیو جابز وفات پا گئے۔
تصویر: cc-by William Avery/Matt Buchanan
ایجاد کس کی تھی؟
2011ء سے ایپل اور سام سنگ کے مابین رسہ کشی جاری ہے۔ ایپل کا الزام ہے کہ جنوبی کوریا کی کمپنی سام سنگ نے ان کی ٹیکنالوجی چرائی ہے۔ دونوں کے مابین عالمی سطح پر حقوق کی ملکیت کی جنگ جاری ہے۔ امریکا میں بدستور جاری مقدموں کو چھوڑ کر باقی زیادہ تر مقدمے اپنے اختتام کو پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دنیا کی سب سے مال دار کمپنی
2014ء میں ایپل کی مارکیٹ ویلیو 700 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ اس حد کو عبور کرنے والی یہ دنیا کی واحد کمپنی تھی۔ ایک سال بعد ایپل واچ لانچ کرنے کی وجہ سے بھی یہ کپمنی سرفہرست رہی۔
تصویر: Reuters/S. Lam
نئے ساحلوں کی تلاش
2016ء کا آغاز ایپل کے لیے زیادہ اچھا نہیں رہا۔ ایپل کی جگہ گوگل کا ادارہ ’الفابیٹ‘ سب سے زیادہ مالیت والا ادارہ بن چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مغربی ملکوں میں سمارٹ فونز کی مارکیٹ سیر ہونے کو ہے۔ ایپل کو اپنی کامیابی کے لیے نئی اختراعات کے ساتھ مارکیٹ میں آنا ہو گا۔