1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی ڈی پیز سرد موسم کے ہاتھوں پریشان

دانش بابر، پشاور8 دسمبر 2014

آپریشن آپریشن ضرب عضب کے سبب شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے دس لاکھ سے زائد متاثرین سرد موسم کے ہاتھوں شدید مشکلات کا شکار ہیں اور حکومت سے واپس جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

تصویر: DW/D. Baber

پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ملکی فوج کا آپریشن جاری ہے۔ فوج کے مطابق اس آپریشن میں اب تک سینکڑوں مقامی اور غیر ملکی شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔

آپریشن ضرب عضب کے سبب شمالی وزیرستان کے علاقے میرعلی سے تعلق رکھنے والے ساٹھ سالہ گلشن امیر کا کہنا ہے کہ یہ ان کی زندگی کے بدترین دن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بے سروسامان کی حالت میں اس طرح کیمپوں میں زندگی گزارنے سے اچھا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں ہلاک ہوجائیں: ”موسم روزبروز سرد ہورہا ہے، پہلے ہمیں گرمی نے ستایا اب سردی جان لے رہی ہے، خوراک کی اشیاء کے لیے تین تین دن تک قطاروں میں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔“

وہ کہتے ہیں کہ انہیں اتنا کم راشن دیا جاتا ہے جس میں بمشکل گزارا ہوتا ہے۔ سردی کی وجہ سے بچے اور بڑے بیمار ہورہے ہیں لیکن علاج کے لیے خاطرخواہ سہولت موجود نہیں ہے۔

اگر 90 فیصد علاقہ کلیئر ہو چکا ہے تو متاثرین کو واپس ان کے گھروں میں جانے دیا جائے، متاثرین کا مطالبہتصویر: DW/D. Baber

آپریشن ضرب عضب کے سبب شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے شہریوں کوحکومت کی طرف سے سردی سے بچاوٴکے لیے ونٹر کٹ (سردی کا سامان) کی فراہمی شروع ہوگئی ہے۔ متاثرین کو خیمے، گرم کپڑے اور کمبل تو دیے جارہے ہیں تاہم متاثرین کا کہنا ہے کہ یہ ان کے لیے ناکافی ہیں۔ شدید گرمی کے موسم کے بعد اب خشک سردی کی یہ لہر ان کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہے۔

دتہ خیل سے تعلق رکھنے والے ذاکراللہ کہتے ہیں کہ قبائلی عوام نے حکومت اور فوج کا آپریشن کے دوران بھرپور ساتھ دیا ہے اور اب ان کو بھی چاہیے کہ متاثرین کو تمام تر سہولیات فراہم کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس موسم کی شدت سے خود کو اور اپنے اہل وعیال کو محفوظ رکھنے کا ایسا کوئی سامان میسر نہیں ہے، جس کا انتظام وہ گھر میں رہ کر کر سکتے تھے، اس لیے یہ زندگی ان کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔

’’خوراک کی اشیاء کے لیے تین تین دن تک قطاروں میں کھڑے رہنا پڑتا ہے‘‘تصویر: DW/D. Baber

متاثرین کا مطالبہ ہے کہ حکومتی دعووں کے مطابق اگر 90 فیصد علاقہ کلیئر ہو چکا ہے تو متاثرین کو واپس ان کے گھروں میں جانے دیا جائے۔ ان متاثرین کے مطابق اگرچہ بنوں میں ان کے لیے تین راشن پوائنٹ بنائے گئے ہیں لیکن ہر دوسرے روز راشن کے تقسیم کے دوران متاثرین پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہے اور راشن اور بستروں کے لیے ان کو کئی کئی دنوں تک انتظار کرنا پڑرہا ہے۔ ذاکر اللہ کے مطابق: ”آج کی بات ہے کہ میرا بہنوئی صبح اذانوں کے وقت گیا تھا اور عصر کے وقت خالی ہاتھ واپس آیا۔ ان کو نہ کمبل ملا اور نہ ہی راشن۔“

وہ کہتے ہیں کہ ناکافی بستروں اور کمبلوں کی وجہ سے ایک کمبل میں تین یا چار افراد سوتے ہیں۔ جو کہ حکومت اور دوسری فلاحی اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

راشن تقسیم کرنے والے ایک ادارے کے کارکن کے مطابق متاثرین کی بحالی اور امداد کے کام کو مزید تیز اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس بہتر وسائل اور بین الاقوامی اداروں کی مدد حاصل ہے لہذا حکومت کو چاہیے کہ ان کو بروئے کار لائے تاکہ موسم کے مزید سرد ہونے سے پہلے متاثرین کو بہتر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں