اٹلی نے مہاجرین کے حوالے سے اپنے موقف پر پہلے سے زیادہ سختی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ روم حکومت مزید ’ایک مہاجر‘ بھی قبول نہیں کرے گی۔ اٹلی نے متنبہ کیا ہے کہ مہاجرت کا بحران یورپی بلاک کی بقا کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
اشتہار
مہاجرین کے موضوع پر ہونے والی ایک کانفرنس سے محض دو روز قبل اٹلی کی تین ہفتے پرانی حکومت نے مہاجرین کی آمد کو روکنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہاجرین کے جہازوں کو یا تو سمندر میں روک لیا جائے گا یا پھر انہیں اطالوی بندرگاہوں تک نہیں آنے دیا جائے گا۔
اٹلی کے وزیر داخلہ ماتیو سالوینی نے جرمن جریدے اشپیگل سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ ہم ایک بھی مزید تارک وطن کو قبول نہیں کر سکتے۔ بلکہ ہم تو کئی ایک کو واپس بھیج رہے ہیں۔‘‘
اطالوی وزیر داخلہ نہ صرف ملک میں مہاجرین مخالف جماعت کے سربراہ ہیں بلکہ ملک کے نائب وزیراعظم کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔ مہاجرین کی قبولیت کے حوالے سے سالوینی غیر لچک دار اور سخت موقف رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Poschmann
یہ سالوینی ہی تھے، جنہوں نے گزشتہ ہفتے چھ سو سے زائد مہاجرین کو لانے والے امدادی جہاز ایکوئیریس کو اٹلی کے پانیوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔ جمعرات کے روز ایک جرمن این جی او کے امدادی جہاز ’’مشن لائف لائن‘‘ کے حوالے سے سالوینی نے ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ غیر قانونی کشتی لائف لائن اب مالٹا کی سمندری حدود میں ہے۔ جس میں عملے اور مہاجرین سمیت 239 افراد سوار ہیں۔ عملے اور مسافروں کی حفاظت کے لیے ہم نے مالٹا کی حکومت سے اپنی بندرگاہیں کھولنے کو کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاز کو روک کر اس کے عملے کو گرفتار کیا جانا چاہیے۔‘‘
یاد رہے کہ آئندہ اتوار کو مہاجرین کے موضوع پر ایک اجلاس ہونے جا رہا ہے جس میں یورپی یونین کے تمام اٹھائیس رکن ممالک پناہ کے نظام کی تجدید نو پر بات چیت کریں گے۔
ص ح / ع ت / اے ایف پی
اطالوی پہاڑوں کی آغوش ميں ايک نئی زندگی کا آغاز
جنوبی اٹلی ميں اسپرومونٹے پہاڑی سلسلے کی آغوش ميں ايک چھوٹا سا گاؤں جو کبھی تاريکی اور خاموشی کا مرکز تھا، آج نوجوانوں کے قہقہوں سے گونج رہا ہے۔ سانت آليسيو ميں اس رونق کا سبب پناہ گزين ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
گمنامی کی طرف بڑھتا ہوا ايک انجان گاؤں
کچھ برس قبل تک سانت آليسيو کی کُل آبادی 330 افراد پر مشتمل تھی۔ ان ميں بھی اکثريت بوڑھے افراد کی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بلاکوں کی مدد سے بنی ہوئی تنگ گلياں اکثر وبيشتر خالی دکھائی ديتی تھيں اور مکانات بھی خستہ حال ہوتے جا رہے تھے۔ گاؤں کے زيادہ تر لوگ ملازمت کے بہتر مواقع کی تلاش ميں آس پاس کے بڑے شہر منتقل ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
نئے مہمان، نئی رونقيں
سن 2014 ميں سانت آليسيو کی کونسل نے قومی سطح کے ’پروٹيکشن سسٹم فار ازائلم سيکرز اينڈ ريفيوجيز‘ (SPRAR) نامی نيٹ ورک کے تحت مہاجرين کو خالی مکانات کرائے پر دينا شروع کيے۔ آٹھ مکانات کو قريب پينتيس مہاجرين کو ديا گيا اور صرف يہ ہی نہيں بلکہ ان کے ليے زبان کی تربيت، سماجی انضام کے ليے سرگرميوں، کھانے پکانے اور ڈانس کلاسز کا انتظام بھی کيا گيا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ايک منفرد منصوبہ
يہ ايک خصوصی منصوبہ ہے، جس کے تحت ان افراد کو پناہ دی جا رہی ہے، جو انتہائی نازک حالات سے درچار ہيں۔ ان ميں ماضی میں جسم فروشی کی شکار بننے والی عورتيں، ايچ آئی وی وائرس کے مريض، ذيابيطس کے مرض ميں مبتلا افراد اور چند ايسے لوگ بھی شامل ہيں جنہوں نے اپنے آبائی ملکوں ميں جنگ و جدل کے دوران کوئی گہرا صدمہ برداشت کیا ہے یا زخمی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ميئر اسٹيفانو کالابرو بھی خوش، لوگ بھی خوش
سانتا ليسيو کے ميئر اسٹيفانو کالابرو کا کہنا ہے کہ ان کا مشن رحم دلی پر مبنی ہے اور انسانی بنيادوں پر مدد کے ليے ہے ليکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے معاشی فوائد بھی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
دو طرفہ فوائد
رياست کی طرف سے ہر مہاجر کے ليے يوميہ پينتاليس يورو ديے جاتے ہيں۔ يہ رقم انہیں سہوليات فراہم کرنے پر صرف کی جاتی ہے۔ اس منصوبے کی وجہ سے سانت آليسيو ميں سولہ لوگوں کو ملازمت مل گئی ہے، جن ميں سات افراد مقامی ہيں۔ سروسز کی فراہمی کے ليے ملنے والی رقوم کی مدد سے گاؤں کا جم ( ورزش کا کلب) واپس کھول ديا گيا ہے اور اس کے علاوہ ايک چھوٹی سپر مارکيٹ اور ديگر چھوٹے چھوٹے کاروبار بھی بندش سے بچ گئے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
سانت آليسيو کے ليے نئی اميد
مقامی افراد اس پيش رفت سے خوش دکھائی ديتے ہيں۔ نواسی سالہ انتوونيو ساکا کہتے ہيں کہ وہ اپنے نئے پڑوسيوں سے مطمئن ہيں۔ ساکا کے بقول وہ اپنی زندگياں خاموشی سے گزارتے ہيں ليکن ديگر افراد کے ساتھ ان کا برتاؤ اچھا ہے اور کام کاج ميں بھی لوگوں کا ہاتھ بٹاتے ہيں۔ سيليسٹينا بوريلو کہتی ہيں کہ گاؤں خالی ہو رہا تھا اور عنقريب مکمل طور پر خالی ہو جاتا، مگر مہاجرين نے اسے دوبارہ آباد کر ديا ہے۔