آبنائے تائیوان میں جنگی جہاز بھیجنے پر چین کی سخت تنقید
18 اکتوبر 2021
چین کا کہنا ہے کہ امریکا اور کینیڈا کے اس اقدام نے خطے کے امن و استحکام کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ تاہم امریکا کے مطابق یہ کارروائی اس کی اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے آزاد اور کھلے ہند بحرالکاہل کے عزم کا مظہر ہے۔
اشتہار
چین کی فوج نے 17 اکتوبر اتوار کے روز اپنے ایک سخت بیان میں امریکا اور کینیڈا کی جانب سے آبنائے تائیوان سے گزشتہ ہفتے جنگی جہاز لے جانے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ شمالی امریکی ممالک خطے کے امن اور استحکام کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
چینی پیپلز آرمی کے مشرقی تھیئٹر کمانڈ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس کی افواج نے امریکی جہازوں کے گزرنے کے دوران مسلسل ان کی نگرانی کی اور پورے عمل کے دوران بطور ''محافظ'' تعینات رہے۔ آبنائے تائیوان ہی چین اور تائیوان کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے جس پر چین اپنی دعوی کرتا ہے۔
گزشتہ ہفتے کے اواخر میں میزائیلوں سے لیس ایک امریکی جنگی جہاز 'ایرلیف بروک ڈیوی' اور اسلحہ سمیت دیگر جنگی ساز و سامان سے لیس کینیڈا کا ایک عسکری جہاز آبنائے تائیوان سے گزرے تھے۔
چین کا کیا کہنا ہے؟
چین نے کہا، ''امریکا اور کینیڈا نے مشترکہ اقدام کے تحت اشتعال انگیزی کے ذریعے مشکلات کو ہوا دی اور آبنائے تائیوان کے امن اور استحکام کو شدید خطرے میں ڈال دیا۔ تائیوان چینی علاقے کا ہی ایک حصہ ہے۔ خطے میں ہماری فوج ہمیشہ اعلی درجے کی چوکسی کو برقرار رکھتی ہے اور تمام خطرات اور اشتعال انگیزیوں کا بھر پور مقابلہ کرتی ہے۔''
چین تائیوان پر اپنا دعوی پیش کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ تائیوان اس کا ایک حصہ ہے اور چین میں اس کا انضمام ضروری ہے اور اگر ضرورت پڑی تو طاقت کے زور پر مکمل طور پر اسے چین میں ضم کیا جا سکتا ہے۔
حال ہی میں چین کی جانب سے تائیوان کی فضائی حدود میں در اندازی کی خبریں آئی تھیں اور اطلاعت کے مطابق اس نے درجنوں پروازیں
تائیوان کی فضائی حدود میں بھیجی تھیں۔ اس حوالے سے تائیوان کی وزیر اعظم سو سینگ نے چین پر یہ کہتے ہوئے نکتہ چینی بھی کی تھی کہ تائی پی کو اس وقت الرٹ رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ چینی کارروائیاں حد سے گزرنے کے مترادف ہیں۔
امریکا کا موقف کیا ہے؟
امریکی فوج نے اس حوالے سے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ گزشتہ جمعرات اور جمعے کے روز اس کا ایک میزائلوں سے لیس جہاز ایرلیف بروک ڈیوی اور کینیڈا کا جنگی جہاز ایچ ایم سی ایس ون پیگ آبنائے تائیوان سے گزرے تھے۔
بیان کے مطابق، ''آبنائے تائیوان کے ذریعے ڈیوی اور ون پیگ کا گزرنا، امریکا، ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کی جانب سے ہند بحرالکاہل کو آزاد اور کھلا رکھنے کے عزم کا مظہر ہے۔''
امریکی بحری بیڑے کے جہاز آبنائے تائیوان سے گزرتے رہتے ہیں جس پر بیجنگ کافی غصے کا اظہار کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ واشنگٹن خطے میں کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے۔ امریکا کے بعض اتحادی بھی اس آبنا ئے سے اپنے جہاز لے جاتے ہیں جیسا کہ گزشتہ ماہ برطانیہ نے بھی کیا تھا۔
اشتہار
تائیوان کے حوالے سے کشیدگی
اس ماہ کے اوائل سے ہی تائیوان کے حوالے سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ تائیوان خود کو ایک خود مختار ریاست سمجھتا ہے لیکن چین اسے اپنے ملک کا ہی ایک حصہ قرار دیتا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے گزشتہ دنوں تائیوان کے ”مکمل انضمام'' کے اپنے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ چین نے تائیوان کے دوبارہ انضمام کے حصول کے لیے طاقت کے ممکنہ استعمال کو بھی مسترد نہیں کیا۔
خیال رہے کہ چین اور تائیوان سن 1940 کی دہائی میں خانہ جنگی کے دوران منقسم ہو گئے تھے تاہم چین کا اصرار ہے کہ یہ جزیرہ اس کا اپنا حصہ ہے اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو انضمام کے لیے طاقت کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تائیوان کا اپنا آئین ہے اور یہاں جمہوری طورپر رہنماؤں کا انتخاب ہوتا ہے۔ البتہ صرف چند ممالک ہی تائیوان کو تسلیم کرتے ہیں۔ امریکا کا تائیوان کے ساتھ کوئی سرکاری تعلق نہیں ہے۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز)
چین اور تائیوان: بظاہر دو بہترین دشمن؟
چینی صدر شی جن پنگ نے زور دیا ہے کہ چین اور تائیوان کا ’پرامن اتحاد‘ ہونا چاہیے، جس پر تائیوان کی طرف سے شدید ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ تائیوان کا معاملہ ہے کیا؟ آئیے ان تصاویر کے ذریعے اسے ذرا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/AFP/Getty Images
قبضے اور آزادی کی کشمکش
دوسری عالمی جنگ کے بعد ماؤزے تنگ نے کیمونسٹ پارٹی آف چائنا کے پرچم تلے سیاسی حریف چیانگ کائی شیک سے اقتدار چھیننے کی کوشش کی۔ کومنتانگ پارٹی کے سربراہ کائی شیک اس لڑائی میں ناکام ہوئے اور ایک چھوٹے سے جزیرے تائیوان پر فرار ہو گئے۔ تب تائیوان کا جزیرہ اطراف کے مابین پراپیگنڈے کا مرکز بن گیا۔ کیمونسٹ پارٹی تائیوان کو ’آزاد‘ کرانا چاہتی تھی جبکہ کومنتانگ ’مین لینڈ چین پر دوبارہ قبضہ‘ کرنا چاہتی تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images
ہم وطنوں کے لیے پیغامات
پچاس کی دہائی میں کیمونسٹ پارٹی آف چائنا نے تائیوان میں سکونت پذیر چینی ہم وطنوں کو چار پیغامات ارسال کیے۔ یہی پیغامات دراصل چین کی تائیوان سے متعلق ریاستی پالیسی کی بنیاد قرار دیے جاتے ہیں۔ تب بیجنگ نے تائیوان کو خبردار کیا تھا کہ وہ ’سامراجی طاقت‘ امریکا سے گٹھ جوڑ نہ کرے۔ اس دور میں اطراف کے ایک دوسرے پر توپ خانے سے حملے بھی جاری رہے۔
تصویر: Imago/Zuma/Keystone
اقوام متحدہ میں تائی پے کی جگہ بیجنگ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سن 1971 میں تسلیم کر لیا کہ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت ہی اس ملک کی جائز نمائندہ حکومت ہے۔ یوں جمہوریہ چین ROC (تائیوان) کو اقوام متحدہ کے تمام اداروں سے بےدخل کر دیا گیا۔ اس تصویر میں جمہوریہ چین کہلانے والے تائیوان کے اس دور کے وزیر خارجہ چاؤ شو کائی اور سفیر لیو چی کی پریشانی اور مایوسی نمایاں ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA/Keystone
تائیوان کی نئی پالیسی
چین کی طرف سے تائیوان کو آخری پیغام یکم جنوری سن 1979 کو ارسال کیا گیا تھا۔ تب کیمونسٹ پارٹی کے رہنما دینگ سیاؤپنگ نے جنگی کارروائیوں کو ترک کر دیا تھا اور تائیوان کے ساتھ باہمی تعلقات میں بہتری کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تائیوان کے ساتھ پرامن اتحاد کی کوشش کریں گے۔ تاہم تائیوان کی طرف سے عالمی سطح پر چین کی نمائندگی کے حق کو چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
’ون چائنا‘ پالیسی
چین اور امریکا کی قربت کے باعث بیجنگ حکومت کی تائیوان سے متعلق پالیسی میں جدت پیدا ہوئی۔ یکم جنوری سن 1979 کو ہی چین اور امریکا کے سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔ تب امریکی صدر جمی کارٹر نے تسلیم کر لیا کہ پورے چین کی نمائندہ اور جائز حکومت بیجنگ میں ہی ہے۔ تب تائیوان میں امریکی سفارتخانے کو ایک ثقافتی مرکز کی حیثیت دے دی گئی تھی۔
تصویر: AFP/AFP/Getty Images
ایک چین دو نظام
امریکی صدر جمی کارٹر سے ملاقات سے قبل ہی چینی رہنما دینگ سیاؤپنگ نے ’ایک ملک اور دو نظام‘ کی پالیسی متعارف کرائی، جس میں تائیوان کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنا سوشل سسٹم برقرار رکھے اور چین کے ساتھ اتحاد کے بعد بھی بے شک اس پر عمل پیرا رہے۔ تاہم اس وقت کے تائیوانی صدر چیانگ چینگ کاؤ فوری طور پر اس تجویز سے متفق نہ ہوئے۔ لیکن پھر سن 1987 میں انہوں نے ’بہتر نظام کے لیے ایک چین‘ کے اصول کی حمایت کر دی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
آزادی کی تحریک
سن 1986 میں تائیوان کی پہلی اپوزیشن سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی DPP معرض وجود میں آئی۔ سن 1991 میں اس اپوزیشن پارٹی نے تائیوان کی آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ اس پارٹی کے منشور میں شامل تھا کہ تائیوان ایک خود مختار ریاست ہے، جو چین کا حصہ نہیں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Yeh
’سن بانوے کا اتفاق‘
سن 1992 میں تائی پے اور بیجنگ کے مابین ہانگ کانگ میں ایک غیر رسمی ملاقات میں باہمی تعلقات کے حوالے سے ایک سیاسی معاہدہ طے پایا۔ ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کے نام سے مشہور اس معاہدے کے تحت اطراف نے ایک چین کی پالیسی پر اتفاق تو کر لیا لیکن اس تناظر میں دونوں کی تشریحات میں فرق نمایاں رہا۔ اس کے ایک سال بعد دونوں کے اعلیٰ ترین مذاکراتی نمائندوں وانگ (دائیں) اور کو نے سنگاپور میں ایک اور ملاقات کی تھی۔
تصویر: Imago/Xinhua
باہمی تعلقات
تائیوان کے اولین جمہوری صدر اور KMT کے رہنما لی ٹینگ ہوئی نے سن 1995 میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تائیوان سے باہر کسی بھی ملک سے باہمی تعلقات کی نوعیت ایسی ہو گی جیسی کہ دو ریاستوں کے مابین ہوتی ہے۔ ان کا یہ بیان بیجنگ سے آزادی کے اعلان سے انتہائی قریب تصور کیا گیا تھا۔
تصویر: Academia Historica Taiwan
تائیوان میں اپوزیشن کی جیت
تائیوان کی اپوزیشن ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی DPP نے سن 2000 کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کر لی۔ تب تائیوان میں ہی پیدا ہونے والے شین شوئی بیَان صدر کے عہدے پر فائز ہوئے، جن کا مین لینڈ چین کے ساتھ کبھی کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔ یوں تائیوان میں کومنتانگ پارٹی کی پچپن سالہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس سیاسی تبدیلی کا مطلب یہ لیا گیا کہ اب تائیوان کا چین سے کچھ لینا دینا نہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/Jerome Favre
’ایک چین‘ کی مختلف تشریحات
سن 2000 کے الیکشن میں ناکامی کے بعد کومنتانگ پارٹی نے ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کے حوالے سے اپنے نظریات میں ترمیم کر لی۔ اسی سبب ’ون چائنا پالیسی کی مختلف تشریحات‘ سے متعلق یہ معاہدہ تائیوان میں آج بھی زیربحث ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سن انیس سو بانوے میں ہونے والے مذاکرات میں کوئی باضابطہ سرکاری موقف واضح نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: Imago/ZumaPress
کیمونسٹ پارٹی اور کومنتانگ پارٹی کے رابطے
بیجنگ حکومت ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کو تائیوان کے ساتھ تعلقات کی سیاسی اساس قرار دیتی ہے۔ چین میں کیمونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد اطراف کے مابین ہوئی پہلی سمٹ میں چینی صدر ہو جن تاؤ (دائیں) اور لیان زہان نے ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کی بھرپور حمایت کی اور ’ون چائنا پالیسی‘ کو بنیادی اصول تسلیم کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
’سمت درست ہے‘
تائیوان میں سن 2008 کے صدارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد کومنتانگ پارٹی دوبارہ اقتدار میں آ گئی۔ سن 2009 میں تائیوانی صدر ما ینگ جیو نے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ تائیوان امن اور سکیورٹی کی ضمانت ہونا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تائی پے اس مقصد کے حصول کے انتہائی قریب پہنچ چکا ہے اور بنیادی طور پر ’ہماری سمت درست ہے‘۔
تصویر: GIO
تائیوان کے لیے سب سے بڑا چیلنج
سن 2016 کے صدارتی الیکشن میں سائی انگ وین کو کامیابی ملی تو تائیوان (جمہوریہ چین) میں آزادی کی تحریک میں ایک نیا جوش پیدا ہوا۔ سائی انگ وین ’سن بانوے کے اتفاق‘ کو متنازعہ قرار دیتی ہیں۔ ان کے خیال میں دراصل یہ ڈیل تائیوان میں چینی مداخلت کا باعث ہے۔ سائی انگ وین نے چینی صدر کی طرف سے تائیوان کے چین ساتھ اتحاد کے بیان پر بھی بہت سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔