1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آتش فشاں کی راکھ: یورپ میں پروازیں بدستور متاثر

17 اپریل 2010

آئس لینڈ میں آتش فشاں سے اٹھنے والی راکھ کے نتیجے میں یورپ کے مختلف ممالک میں پروازیں بدستور متاثر ہو رہی ہیں۔ ایوی ایشن حکام کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ کچھ دنوں تک جاری رہنے کا خدشہ ہے۔

تصویر: AP

انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ہفتہ کو صورت حال زیادہ سنگین ہو سکتی ہے۔ سول ایئر نیوی گیشن سروسز آگنائزیشن نے ایک اعلامئے میں کہا ہے کہ ایئرٹریفک کو نئے سرے سے مرتب کرنا ہوگا، جس میں پروازوں کے لئے نئے روٹس طے کرنا بھی شامل ہے۔

یورپ کا دوسرا بڑا ایئرپورٹ فرینکفرٹ بھی متاثر ہےتصویر: AP

بدھ کو آئس لینڈ میں آتش فشاں پھٹنے کے بعد سے تقریبا 20 ممالک نے اپنی فضائی حدود کو جزوی یا کُلی طور پر بند کر رکھا ہے۔ تاہم سویڈن، آئرلینڈا ور ناروے نے اپنی فضائی حدود کھول دی ہے۔

متاثرہ زون میں یومیہ 28 ہزار پروازیں آپریٹ کی جاتی ہیں، جن میں سے دو تہائی ہی ممکن ہو سکی ہیں۔ لندن اور فرینکفرٹ میں یورپ کے مصروف ترین ہوئی اڈے بھی متاثر ہیں۔ اس صورت حال کے نتیجے میں یورپ کے شمالی علاقوں میں فضائی سفر کے خواہاں افراد نے ٹرینوں، بسوں اور فیری سروسز کیا رخ کیا ہے۔

دوسری جانب یورپین ایئر ٹریفک کنٹرول آرگنائزیشن نے فضائی سفر کرنے والوں کو خبردار کیا ہے کہ مشکل صورت حال کے لئے خود کو تیار رکھیں۔

آتش فشاں سے اٹھنے والی راکھ میں شیشے، ریت اور پتھر کے ذرات شامل ہیں، جو طیاروں کے لئے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ راکھ کے بادل برطانیہ، پولینڈ، فرانس کے شمالی علاقوں اور آسٹریا سمیت مختلف ممالک سے ہوتے ہوئے 40 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے روس کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

آتش فشاں کی راکھ میں شیشے، ریت اور پتھر کے ذرات شامل ہیںتصویر: AP

یورپین ایئر ٹریفک کنٹرول آرگنائزیشن نے جمعرات کو خبردار کر دیا تھا کہ پروازیں مزید دو روز تک متاثر ہو سکتی ہیں۔ یورو کنٹرول کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ متاثرہ علاقوں میں ہواؤں کی رفتار سست ہے، جس کی وجہ سے راکھ کے بادل آہستہ حرکت کر رہے ہیں۔ اس باعث سب سے پہلے برطانیہ، آئرلینڈ، ڈنمارک، سویڈن، فن لینڈ، بیلجیئم اور ہالینڈ نے اپنی فضائی حدود بند کر دی تھی۔ فرانس نے ملک کے شمالی علاقوں میں 24 ہوائی اڈے بند رکھے۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں