تحفظ ماحول کی کم سن کارکن گریٹا تھنبرگ نے نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی سے برطانیہ میں ملاقات کی۔ اس موقع پر تھنبرگ نے ملالہ سے ان کی سماجی سرگرمیوں پر تبادلہ خیال کیا اور طلباء سے بھی بات چیت کی۔
اشتہار
17سالہ سویڈش ایکٹیوسٹ نے بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم 22 سالہ پاکستانی کارکُن ملالہ سے منگل کے روز آکسفورڈ یونیورسٹی کے کیمپس میں ملاقات کی۔ ملالہ اسی یونیورسٹی سے فلسفہ، سیاست اور معاشیات کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
یوسف زئی نے گریٹا تھنبرگ سے اپنی اس ملاقات کے بارے میں ٹویٹر پر لکھا،''یہ واحد دوست ہیں، جس کے لیے میں اسکول چھوڑوں گی۔‘‘ ساتھ ہی ملالہ نے انسٹا گرام پر اپنی اور گریٹا تھنبرگ کی ایک تصویر بھی پوسٹ کی، جس میں یہ دونوں ایک پارک کی بنچ پر بیٹھی ہیں۔ اس فوٹو کا عنوان ہے''شکریہ گریٹا تھنبرگ‘‘۔
کالج کے پرنسپل نے بتایا کہ گریٹا نے طلبا سے سائنس کے متعدد موضوعات کے علاوہ ووٹنگ، احتجاج اور مظاہروں کی حدود جیسے موضوعات پر بھی بات چیت کی۔ اس موقع پر تحفظ ماحولیات کے لیے دنیا بھر میں اپنی مہم سے پہچانی جانے والی 17 سالہ سویڈش ایکٹیویسٹ تھنبرگ نے اپنا وہ بیان دہرایا جو انہوں نے اس سال جنوری میں ڈاووس ميں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب میں دیا تھا۔ 50 ویں ڈاووس فورم کے موقع پر تھنبرگ نے دنیا کی بڑی اقتصادی طاقتوں سے کہا تھا کہ وہ ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے تناظر میں ضرر رساں گیس کے اخراج میں کمی کے وعدوں کو محض ہندسوں کی گنتی کا کھیل نہ بنائیں اور نئے درخت لگانے کی اسکیم کو گیس اخراج میں کمی کے اہداف سے نہ جوڑیں۔ یہ دونوںعلیحدہ علیحدہ اقدامات ہیں، جنہیں ایک دوسرے کا متبادل نہیں بنایا جانا چاہیے۔
ڈاووس میں تھنبرگ نے کہا تھا، ''کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے بارے میں نیٹ زیرو کو بھول جائیں ریئل زیرو کی بات کریں۔‘‘یعنی مفروضات نہیں بلکہ حقیقی اہداف کی بات کی جانی چاہیے۔ اس موضوع پر بھی گریٹا تھنبرگ نے برطانیہ میں ملالہ سمیت دیگر طلبا کے ساتھ بات چیت کی۔ انہوں نے ایک اور تصویر ٹویٹ کی اور اس پر تحریر کیا،'' آج میں اپنی رول ماڈل ملالہ سے مل رہی ہوں، اس سے زیادہ میں اور کیا کہوں۔‘‘
تھنبرگ جمعے کو شہر برسٹل کے ایک اسکول میں طلبا کی طرف سے تحفظ ماحولیات سے متعلق ایک احتجاجی ہڑتال میں حصہ لیں گی۔ وہاں پہنچنے سے پہلے انہوں نے آکسفورڈ میں ملالہ یوسفزئی اور دیگر طلبا سے ملاقات کی۔
ملالہ کی جدوجہد: نوبل انعام اور دیگر اعزازات
تعلیم کے حق کے لیے جدوجہد کرنے والی پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی اور بھارتی سماجی کارکن کیلاش ستیارتھی نے مشترکہ طور پر نوبل امن انعام وصول کر لیا ہے۔ ملالہ اس سے قبل بھی متعدد بین الاقوامی اعزازات وصول کر چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Plunkett
نوبل امن انعام اور بہترین لمحات
پاکستان کی ملالہ یوسف زئی اور بھارت کے کیلاش ستیارتھی کو دس دسمبر کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں مشترکہ طور پر نوبل امن انعام دے دیا گیا۔ اس سے قبل ملالہ اور ستیارتھی نے کہا تھا کہ وہ دونوں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Plunkett
کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ شخصیت
نوبل انعام کی تاریخ میں سترہ سالہ ملالہ یوسف زئی یہ اعزاز حاصل کرنے والی سب سے کم عمر شخصیت بن گئی ہیں۔ نوبل انعامات دینے کا سلسلہ 1901ء میں شروع ہوا تھا۔ ملالہ کو گزشتہ برس بھی اس انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا مگر انہیں اس اعزاز کا حقدار اس سال ٹھہرایا گیا۔ نوبل کمیٹی کے مطابق ملالہ اور ستیارتھی کو یہ انعام بچوں اور نوجوانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/C. Poppe
ملالہ کے لیے سخاروف انعام
سولہ سالہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کو بدھ بیس نومبر کو شٹراس برگ میں یورپی پارلیمان نے انسانی حقوق کے سخاروف انعام سے نوازا۔ اُسے یہ انعام لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اُس کی اُس جرأت مندانہ جدوجہد کے اعتراف میں دیا گیا ہے، جس کے لیے اُس کی جان بھی داؤ پر لگ گئی تھی۔ 9 اکتوبر 2012ء کو طالبان نے وادیء سوات میں ملالہ کو گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters
ملالہ یورپی پارلیمان میں
ملالہ یوسف زئی بیس نومبر بدھ کے روز شٹراس برگ میں یورپی پارلیمان کے اسپیکر مارٹن شُلز کے ہاتھوں انسانی حقوق کا انعام ’سخاروف پرائز‘ وصول کر رہی ہے۔ نوبل امن انعام یافتہ روسی منحرف آندرے سخاروف سے موسوم پچاس ہزار یورو مالیت کا یہ انعام یورپی یونین کا اہم ترین اعزاز گردانا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters
اعلیٰ قدر و قیمت کا حامل انعام
یورپی پارلیمان سن 1988ء سے سخاروف پرائز دیتی چلی آ رہی ہے۔ یہ انعام ان شخصیات کو دیا جاتا ہے، جنہوں نے انسانی حقوق، اقلیتوں کے تحفظ، بین الاقوامی قانون کی پاسداری اور فکری آزادی کے لیے جدوجہد کی ہو۔ اب تک یہ انعام جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا اور میانمار کی آنگ سان سُوچی جیسی شخصیات کے حصے میں آ چکا ہے۔
تصویر: Reuters
عزم و حوصلے کی علامت
ملالہ کے برمنگھم میں کئی آپریشنز ہوئے۔ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد وہ اسی برطانوی شہر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ قیام پذیر ہے۔ طالبان کی فائرنگ بھی لڑکیوں کے لیے تعلیم کے حق کے سلسلے میں ملالہ کی جدوجہد کو ختم نہیں کر سکی۔ ملالہ کی بڑھتی مقبولیت اور شہرت اُس کے پیغام کو اور زیادہ نمایاں کرتی چلی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters
ایک لڑکی پوری دنیا کے سامنے
اپنی 16 ویں سالگرہ پر ملالہ نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کیا۔ اپنی کتاب ’آئی ایم ملالہ‘ میں وہ لکھتی ہے:’’اقوام متحدہ کے بڑے ہال میں کھڑے ہونا اور تقریر کرنا ایک ہراساں کر دینے والا تجربہ تھا لیکن میں جانتی تھی کہ مجھے کیا کہنا ہے۔ میرے سامنے صرف چار سو لوگ بیٹھے تھے لیکن جب میں نے ان کی طرف دیکھا تو یہ تصور کیا کہ میرے سامنے پوری دنیا کے کئی ملین انسان موجود ہیں۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa
جدوجہد کا اعتراف انعام کی صورت میں
سخاروف پرائز اُن بہت سے اعزازات میں سے تازہ ترین ہے، جن سے ملالہ کو گزرے مہینوں میں نوازا گیا ہے۔ ابھی اکتوبر کے اوائل میں اس لڑکی کو حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم برطانوی تنظیم "RAW in War" کا آنا پولٹ کوفسکایا انعام دیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اُسے ’ضمیر کی پیامبر‘ کا خطاب دیا۔
تصویر: Reuters
مستقبل کے بڑے منصوبے
ملالہ کی خواہش ہے کہ وہ ایک روز واپس اپنے وطن پاکستان جائے۔ پاکستان میں ملالہ سیاست میں جانا چاہتی ہے اور ہو سکے تو وزیر اعظم بننا چاہتی ہے۔ اپنی اس خواہش کا اظہار ملالہ نےاپنے ایک انٹرویو کے دوران کیا ہے۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
ملالہ یوسفزئی، جنہیں طالبان نے گولی ماری تھی، کو 2014 ء میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ یہ اعزاز انہیں دنیا بھر کے بچوں کو تعلیم کا بنیادی حق دلوانے کی ان کی جدوجہد کے اعتراف میں دیا گیا تھا۔ اس طرح ملالہ امن کے نوبل انعام کی اب تک کی کم سن ترین حقدار بنیں۔ اُس وقت اُن کی عمر 17 برس تھی۔ ملالہ کے بعد 2019ء میں امن نوبل انعام کے لیےاب تک کی دوسری کم سن نامزدگی گریٹا تھنبرگ کی تھی، جو اس اعزاز کے لیے پسندیدہ تصور کی جا رہی تھیں تاہم 2019 ء کا یہ انعام ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی احمد کو دیا گیا تھا۔
سویڈن کے پارلیمانی اہلکاروں نے گریٹا تھنبرگ کو موسمیاتی احتجاجی تحریک '' فرائی ڈیز فار فیوچر‘‘ کی عالمگیر سطح پر قیادت کرنے کے عوض اس سال پھر امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔ اس تحریک نے دنیا بھر کے لاکھوں، کروڑوں بچوں کو متحرک کیا ہے جو مختلف ممالک اور خطوں میں کسی ایک جمعے کو اپنے اسکول کو ترک کر کے سڑکوں پر نکلتے ہیں اور ماحولیاتی تبدیلی سے اپنے اور دنیا کے دیگر بچوں کے مستقبل کو لاحق خطرات کے حوالے سے عالمی برادری کو ماحولیات کے تحفظ کے لیے موثر اور ٹھوس اقدامات کی تلقین کرتے ہیں۔