آج کی دنیا ایک ٹوٹا پھوٹا معمہ، میونخ سکیورٹی رپورٹ کا خلاصہ
مقبول ملک کرسٹیان ٹریپے، بین نائٹ
12 فروری 2019
مقامی اور بین الاقوامی سطح پر سلامتی کے معاملات کے حوالے سے آج کی دنیا ایک ٹوٹے پھوٹے معمے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ بات اسی ہفتے ہونے والی میونخ سکیورٹی کانفرنس سے قبل جاری کردہ میونخ سکیورٹی رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔
اشتہار
جنوبی جرمن شہر اور صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ میں ہر سال ہونے والی سکیورٹی کانفرنس سے قبل، جس میں دنیا بھر سے انتہائی سرکردہ سیاسی، حکومتی اور فوجی شخصیات حصہ لیتی ہیں، ایک ایسی رپورٹ بھی جاری کی جاتی ہے، جو میونخ سکیورٹی رپورٹ کہلاتی ہے۔ میونخ سکیورٹی کانفرنس اسی ہفتے شروع ہو رہی ہے اور پیر گیارہ فروری کو جو میونخ سکیورٹی رپورٹ (MSR) جاری کی گئی، اس میں دیا جانے والا پیغام بہت واضح بھی ہے اور بڑا دلیرانہ ہونے کے ساتھ ساتھ باعث تشویش بھی۔
میونخ سکیورٹی کانفرنس میں اس سال عالمی عدم استحکام کے موضوع پر تفصیلی مباحثے کیے جائیں گے اور اس میں شرکت کرنے والی سرکردہ شخصیات میں امریکی نائب صدر مائیک پینس، روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف اور وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی شامل ہوں گی۔
معمہ حل کون کرے
اس رپورٹ کے مطابق سکیورٹی امور کے حوالے سے آج کی دنیا ایک ایسا ٹوٹا پھوٹا معمہ بن چکی ہے، جس کے بارے میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس معمے کے مختلف ٹکڑوں کو جوڑ کر وہ تصویر کون بنا سکتا ہے، جو مکمل حالت میں اسی معمے سے بنتی ہے یا بن سکتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گہا ہے کہ اس وقت پوری دنیا کو ایک بحران کا سامنا ہے اور امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی سیاست کے ساتھ معاملات کو صرف ’بد سے بد تر‘ ہی بنا رہے ہیں۔
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔
تصویر: Reuters/Prime Minister's Office/A. Scotti
6 تصاویر1 | 6
اسی رپورٹ کے حوالے سے میونخ سکیورٹی کانفرنس کے سربراہ، سینیئر سفارت کار اور امریکا میں جرمنی کے سابق سفیر وولفگانگ اِیشِنگر نے کہا، ’’اس وقت امریکا، چین اور روس کے مابین طاقت کے مقابلے کا ایسا دور شروع ہو چکا ہے کہ جو نظام اب ایک ترقی پسندانہ بین الاقوامی نظام (لبرل انٹرنیشنل آرڈر) کے طور پر جانا جانے لگا ہے، اسے ان حالات میں قیادت کے ایک مخصوص خلا کا سامنا بھی ہے۔‘‘
عدم استحکام کی ایک وجہ ٹرمپ بھی
رپورٹ کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ اس عدم استحکام کی کم از کم ایک بڑی وجہ تو امریکی صدر ٹرمپ بھی ہیں۔ وہ اس طرح کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں وائٹ ہاؤس میں موجودہ انتظامیہ اس بارے میں انتہائی کم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے کہ امریکا کو ان سب معاہدوں پر کاربند رہنا چاہیے، جن کے احترام کا وہ پابند بھی ہے۔
اسی امریکی کردار کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ صدر ٹرمپ اکثر جو ٹویٹس کرتے ہیں، وہ مغربی دفاعی اتحاد جیسی بین الاقوامی تنظیموں اور اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں تک کی حیثیت اور کردار پر بڑے سوالات کھڑے کر دیتی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ بری بات یہ ہے کہ جسے ابھی تک ’آزاد دنیا‘ کہا جاتا ہے اور جس کا سربراہ امریکا کو سمجھا جاتا ہے، صدر ٹرمپ کی قیادت میں امریکا اپنے اسی قائدانہ کردار سے بظاہر دستبردار ہوتا نظر آ رہا ہے۔
ٹرمپ کے ایسے نو ساتھی جو برطرف یا مستعفی ہو گئے
وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر ہوپ ہیکس نے اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے کتنے اعلی عہدیدار برطرف یا مستعفی ہو چکے ہیں، یہ ان تصاویر کے ذریعے جانیے۔
انتیس سالہ سابق ماڈل ہوپ ہیکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہائی قریبی اور پرانی ساتھی قرار دی جاتی ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کی ترجمان ہوپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت پر ان سے پوچھ گچھ بھی کی گئی تھی۔
تصویر: Reuters/C. Barria
اسٹیو بینن
سن دو ہزار سولہ کے انتخابات میں ٹرمپ کی فتح اور اُن کے قوم پرستی اور عالمگیریت کے خلاف ایجنڈے کے پس پشت کارفرما قوت اسٹیو بینن ہی تھے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست ورجینیا میں شارلٹس ویل کے علاقے میں ہونے والے سفید فام قوم پرستوں کے مظاہرے میں ہوئی پُر تشدد جھڑپوں کے تناظر میں ٹرمپ کو ریپبلکنز کی جانب سے سخت تنقید کے ساتھ بینن کی برطرفی کے مطالبے کا سامنا بھی تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Brandon
انٹونی سکاراموچی
’مُوچ‘ کی عرفیت سے بلائے جانے والے 53 سالی انٹونی سکاراموچی وائٹ ہاؤس میں محض دس روز ہی میڈیا چیف رہے۔ بہت عرصے خالی رہنے والی اس آسامی کو نیو یارک کے اس شہری نے بخوشی قبول کیا لیکن اپنے رفقائے کار کے ساتھ نامناسب زبان کے استعمال کے باعث ٹرمپ اُن سے خوش نہیں تھے۔ سکاراموچی کو چیف آف سٹاف جان کیلی نے برطرف کیا تھا۔
امریکی محکمہ برائے اخلاقیات کے سابق سربراہ والٹر شاؤب نے رواں برس جولائی میں وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کے پیچیدہ مالیاتی معاملات پر اختلاف رائے کے بعد اپنے منصب سے استعفی دے دیا تھا۔ شاؤب ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اُن کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے بیانات کے کڑے ناقد رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J.S. Applewhite
رائنس پریبس
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے فوراﹰ بعد رپبلکن رائنس پریبس کو وائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا تھا۔ تاہم تقرری کے محض چھ ماہ کے اندر ہی اس وقت کے مواصلات کے سربراہ انٹونی سکاراموچی سے مخالفت مول لینے کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Segar
شین اسپائسر
وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکرٹری شین اسپائسر کے ٹرمپ اور میڈیا سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ تاہم اُنہوں نے ٹرمپ کی جانب سے انٹونی سکاراموچی کی بطور ڈائرکٹر مواصلات تعیناتی کے بعد احتجاجاﹰ استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسپائسر اس تقرری سے خوش نہیں تھے۔
تصویر: Reuters/K.Lamarque
مائیکل ڈیوبک
وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری مائیکل ڈیوبک کو اُن کے امریکی انتخابات میں روس کے ملوث ہونے کے الزامات کو صحیح طور پر ہینڈل نہ کرنے کے سبب ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Walsh
جیمز کومی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ کومی پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ہلیری کلنٹن کی ای میلز کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ تاہم ٹرمپ کے ناقدین کو یقین ہے کہ برطرفی کی اصل وجہ ایف بی آئی کا ٹرمپ کی انتخابی مہم میں روس کے ملوث ہونے کے تانے بانے تلاش کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. S. Applewhite
مائیکل فلن
قومی سلامتی کے لیے ٹرمپ کے مشیر مائیکل فلن کو رواں برس فروری میں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ فلن نے استعفے سے قبل بتایا تھا کہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل روسی سفیر سے روس پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ فلن پر اس حوالے سے نائب امریکی صدر مائیک پنس کو گمراہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C. Barria
9 تصاویر1 | 9
میونخ سکیورٹی رپورٹ جاری کرتے ہوئے وولفگانگ اِیشِنگر نے کہا کہ یہ ایک اچھی خبر ہے کہ بحر اوقیانوس کے آر پار یورپ اور امریکا کے تعلقات کئی شعبوں میں اٹھنے والے متعدد سوالات کے باوجود انتہائی غیر معمولی ہیں اور اس بار میونخ سکیورٹی کانفرنس میں شریک امریکی کانگریس کے ارکان کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو گی۔ ان میں ایوان نمائندگان کی خاتون اسپیکر نینسی پیلوسی اور سابق صدارتی امیدوار مِٹ رومنی بھی شامل ہوں گے۔
امریکا ’انسانی حقوق کے دور کے بعد کی دنیا‘ میں
میونخ سکیورٹی رپورٹ کے مطابق اچھی کے بعد بری خبر یہ ہے کہ دنیا کے برسراقتدار حلقوں اور طاقت ور شخصیات کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کا وہ کردار بے چینی کی وجہ بن رہا ہے، جس میں جوش و جذبے کا اظہار تو کیا جاتا ہے لیکن جس کے کئی پہلو بے آرام کر دینے والے بھی ہوتے ہیں۔ اس موقف کی وضاحت وولفگانگ اِیشِنگر نے اس طرح کی کہ یوں لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایک ایسی دنیا میں رہ رہی ہے، جو ’انسانی حقوق کے دور کے بعد کی دنیا‘ ہے۔
امریکی صدر کے دور صدارت کا پہلا سال، چند یادگار لمحات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت کا ایک برس مکمل ہو گیا ہے۔ پہلی بار صدرات کا منصب سنبھالنے کے بعد ان کے کئی ایسے متنازعہ بیانات اور فیصلے سامنے آئے جو بلا شبہ یادگار قرار دیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/E. Vucci
مسلم ممالک کے خلاف امتیازی سلوک اور عدالتی کارروائیاں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت کا منصب سنبھالے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ اچانک سات مسلم ممالک کے شہریوں کا 90 روز کے لیے جبکہ تمام ممالک سے مہاجرت کرنے والوں پر 120 دن کے لیے امریکا آمد پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا، جسے بعد میں ملکی عدالت نے کالعدم قرار دے دیا
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Jones
وفاقی تحقيقاتی ادارے کے سربراہ کی اچانک معطلی
نو مئی کو اچانک امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کو ان کے عہدے سے برخاست کر دیا گیا۔ جیمز کومی اس بات کی تحقیقات کر رہے تھے کہ آیا ٹرمپ کی الیکشن مہم میں ہیلری کلنٹن کو شکست دینے کے لیے روس کی مدد لی گئی تھی یا نہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Somodevilla
ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے سے اخراج کا فیصلہ
یکم جون 2017 کو امریکی صدر نے اعلان کیا کہ امریکا ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے یعنی پیرس معاہدےسے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ تاہم اس ماہ ان کا کہنا ہے کہ امریکا چند من مانی شرائط پوری کيے جانے کی صورت میں واپس اس معاہدے میں شامل ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Meissner
شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی دھمکی
گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی امریکی دھمکی کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات دوبارہ شدید کشیدہ ہوگئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/E. Contini
ٹیکس اصلاحات کا نفاذ
امریکی تاریخ میں ٹیکس کی سب سے بڑی کٹوتی کا اصلاحاتی بل بھی صدر ٹڑمپ کے دور صدارت میں نافذ کيا گيا۔ یہ ٹیکس کے نظام میں 1986ء کے بعد کی جانے والی یہ سب سے بڑی اصلاحات تھیں۔
چھ دسمبر کو امریکی صدر نے یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد مسلم ممالک کا شدید ردعمل سامنے آیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N.Shiyoukhi
6 تصاویر1 | 6
ماحولیاتی تبدیلیاں اور جوہری ہتھیار، دونوں ہی خطرہ
ایم ایس آر نامی اس رپورٹ کے مطابق امریکا اور روس کے مابین رقابت ابھی تک دوطرفہ بنیادوں پر ایسے الزامات سے عبارت ہے، جس میں ماسکو واشنگٹن کو اور واشنگٹن ماسکو کو جوہری معاہدوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں بھی، جو ایک مسلمہ حقیقت ہیں، بظاہر ایک ایسے مسئلے کے طور پر دیکھی جاتی ہیں، جو بہت بڑا یا سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے۔
اسی رپورٹ میں اس افسوسناک سوچ کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے خطرات کے معاملات میں جلد کوئی بڑی بہتری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
یورپی یونین بھی تیار نہیں
اس رپورٹ کے مطابق یورپ بین الاقوامی سطح پر اپنے اسٹریٹیجک کردار میں آگے کے بجائے مسلسل پیچھے جا رہا ہے۔ ’’اس کے علاوہ یورپی یونین نے اس سلسلے میں بھی اپنے طور پر کافی تیاری نہیں کی کہ وہ بڑی طاقتون کے مابین طاقت ہی کے بڑے مقابلے میں خود کو کہاں رکھے گا۔‘‘
نیٹو اتحادی بمقابلہ روس: طاقت کا توازن کس کے حق میں؟
نیٹو اتحادیوں اور روس کے مابین طاقت کا توازن کیا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے آئی آئی ایس ایس سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: REUTERS
ایٹمی میزائل
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo
فوجیوں کی تعداد
نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PAP/T. Waszczuk
ٹینک
روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Kästle
ملٹی راکٹ لانچر
روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔
تصویر: Reuters/Alexei Chernyshev
جنگی ہیلی کاپٹر
روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: REUTERS
بمبار طیارے
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
لڑاکا طیارے
روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
طیارہ بردار بحری بیڑے
روس کے پاس صرف ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے اس کے مقابلے میں نیٹو اتحادیوں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
جنگی بحری جہاز
نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bager
دفاعی بجٹ
روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/chromorange
11 تصاویر1 | 11
ایِشِنگر کے مطابق 2019ء یورپ اور یورپی یونین کے لیے ایک فیصلہ کن سال ہو گا، خاص طور پر اس لیے بھی کہ مارچ کے آخر میں برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے گا اور اکتوبر میں یورپی مرکزی بینک کے نئے صدر کی نامزدگی عمل میں آئے گی۔
بریگزٹ کے باعث ’زخم‘
جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے تو بریگزٹ کی وجہ سے یہ پیش گئی ابھی تک نہیں کی جا سکتی کہ لندن اپنے لیے مستقبل میں کس پوزیشن کا خواہش مند ہو گا اور عملی طور پر اس کی حیثیت آئندہ کتنی مؤثر رہے گی۔
اس رپورٹ میں بریگزٹ کے بارے میں پورا ایک باب شامل کیا گیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ لندن اور برسلز کے مابین بریگزٹ کی عملی تفصیلات اور ان کی پارلیمانی منظوری تاحال ایک نامکمل عمل ہے۔ یہی بات مستقبل قریب میں بھی رودبار انگلستان کے اطراف کے فریقین کو ’دھچکے اور زخم‘ لگاتی رہے گی۔
ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کارٹونسٹوں کے ’پسندیدہ شکار‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کِم جونگ اُن ایک دوسرے کو جوہری حملوں کی دھمکیاں دیتے ہوئے خوف اور دہشت پھیلا رہے ہیں لیکن کارٹونسٹ ان دونوں شخصیات کے مضحکہ خیز پہلو سامنے لا رہے ہیں۔
تصویر: DW/Gado
’میرا ایٹمی بٹن تم سے بھی بڑا ہے‘
بالکل بچوں کی طرح لڑتے ہوئے شمالی کوریا کے رہنما نے کہا کہ ایٹمی ہتھیار چلانے والا بٹن ان کی میز پر لگا ہوا ہے۔ جواب میں ٹرمپ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے پاس بھی ایک ایٹمی بٹن ہے اور وہ تمہارے بٹن سے بڑا ہے‘۔
تصویر: Harm Bengen
ہیئر اسٹائل کی لڑائی
دونوں رہنماؤں کے ہیئر اسٹائل منفرد ہیں اور اگر ایک راکٹ پر سنہری اور دوسرے پر سیاہ بال لگائے جائیں تو کسی کو بھی یہ جاننے میں زیادہ دقت نہیں ہو گی کہ ان دونوں راکٹوں سے مراد کون سی شخصیات ہیں۔
تصویر: DW/S. Elkin
اگر ملاقات ہو
اگر دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہو تو سب سے پہلے یہ ایک دوسرے سے یہی پوچھیں گے، ’’تمہارا دماغ تو صحیح کام کر رہا ہے نا؟ تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو؟‘‘
تصویر: A. B. Aminu
ماحول کو بدبودار بناتے ہوئے
اس کارٹونسٹ کی نظر میں یہ دونوں رہنما کسی اسکول کے ان لڑکوں جیسے ہیں، جو ماحول کو بدبودار کرنے کے لیے ایک دوسرے سے شرط لگا لیتے ہیں۔