1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آج کی دنیا پر جنگی ماحول طاری ہے: پوپ فرانسس

عابد حسین6 جون 2015

کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسِس آج ایک روزہ دورے پر بوسنیا پہنچے۔ انہوں نے کیتھولک مسیحیوں کو تلقین کی کہ وہ مسلم اور مسیحی برادریوں کے مابین بھائی چارے اور امن کو فروغ دینے کی کوششوں کا حصہ بنیں۔

پوپ فرانسِس ایک روزہ دورے پر بوسنیا پہنچےتصویر: Reuters/Str

سراژیوو میں پوپ فرانسِس کا فقیدالمثال اور جذباتی استقبال کیا گیا۔ مسلم اکثریتی آبادی کے شہر میں ساڑھے تین لاکھ افراد سڑکوں پر پوپ کے قافلے کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور تمام لوگ مسلسل تالیاں بجا کر پوپ کے خیرمقدمی عمل میں شامل تھے۔ اِن کے علاوہ سراژیوو اسٹیڈیم کیتھولک کمیونٹی سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پینسٹھ ہزار سے زائد مسیحی اسٹیڈیم میں پوپ کے دعائیہ خطاب کو سننے کے علاوہ اجتماعی دعا میں شریک ہوئے۔ اسی سراژیوو اسٹیڈیم میں سن 1997 میں پوپ سینٹ جان پال دوم نے جنگ کے بعد انتہائی بڑی مصالحتی دعائیہ عبادت کی قیادت کی تھی۔

دعائیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پوپ نے کہا کہ بوسنیا کی عوام کو ہر روز امن کے حصول کے لیے زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی کوششیں کرنا ہوں گی۔ اُن کے مطابق عملی اقدامات میں محبت، بھائی چارہ، نرمی، برداشت اور مکالمت شامل ہیں۔ انہوں نے کیتھولک اور دوسرے تمام افراد کو تلقین کی کہ اب دوبارہ جنگ نہیں کرنا۔ اس خطاب میں انہوں نے اُن افراد کی مذمت کی جو جنگ کو ہوا دینے میں مصروف ہیں اور ہتھیاروں کی فروخت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پوپ کے مطابق ساری دنیا جنگی ماحول کی لپیٹ میں ہے۔ سراژیوو میں پوپ کے قیام کے دوران موسم انتہائی خوشگوار رہا اور خاص طور پر اسٹیڈیم میں خطاب کے وقت کھلا آسمان اور روشن سورج چمک رہا تھا۔

سراژیوو میں پوپ فرانسِس کا فقیدالمثال اور جذباتی استقبال کیا گیاتصویر: Reuters/M. Rossi

بوسنیا کے دارالحکومت میں قیام کے دوران انہوں نے یہودی، مسیحی اور مسلمان مذہبی اکابرین کے ایک اجلاس میں بھی شرکت کی۔ اس میٹنگ میں انہوں نے تینوں مذاہب کے درمیان باہمی تعلقات اور رواداری کو انتہائی اہم قرار دیا۔ یہ امر اہم ہے کہ سراژیوو کو یورپ کا یروشلم کہا جاتا ہے کیونکہ کسی وقت اِس شہر میں یہودی، مسلمان اور مسیحی اُسی طرح آباد تھے جیسے آج کا یروشلم ہے۔ سن 1990 کی دہائی میں یہ شہر مذہب دشمنی کی آگ میں جلتا رہا اور نفرت کے اُس تنازعے میں ایک لاکھ کے قریب افراد ہلاک اور شہر کی نصف آبادی مہاجرت پر مجبور ہو گئی تھی۔

پوپ کی سراژیوو آمد کے موقع پر مقامی آبادی میں انتہائی جوش و خروش پایا گیا۔ بچوں نے روایتی لباس پہن رکھے تھے اور ان میں بوسنیا کے تینوں بڑے مذاہب کے نشان واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے۔ ہوائی اڈے پر مسلمان ترکھانوں نے پوپ کو اپنے ہاتھوں سے بنایا گیا لکڑی کا تخت پیش کیا۔ اسی تخت پر بیٹھ کر انہوں نے اسٹیڈیم میں ہزاروں افراد سے خطاب کیا۔ بوسنیا کی سہ رکنی صدارت کے ساتھ مل کر کبوتروں کی افزائش کرنے والےایک کیتھولک شخص کی جانب سے پیش کیے گئے سفید کبوتروں کو فضا میں آزاد کیا۔ صدارتی محل کے باہر پوپ نے کہا کہ وہ بوسنیا میں محبت لینے اور محبت باٹنے کے لیے آئے ہیں۔ پوپ کی آمد پر سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے تھے۔

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں