1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

آخری دنوں میں ٹرمپ کسی ملک پر ’ایٹمی حملہ‘ بھی کر سکتے ہیں

9 جنوری 2021

امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر پیلوسی کو خدشہ ہے کہ اپنی صدارت کے آخری دنوں میں صدر ٹرمپ ممکنہ طور پر کسی ملک پر ایٹمی ہتھیاروں سے حملہ بھی کر سکتے ہیں۔ پیلوسی نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹرمپ کے اختیارات کم کیے جانا چاہییں۔

چند ہی روز میں اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے امریکی صدر ٹرمپ اور ایوان نمائندگان کی ڈیموکریٹ اسپیکر نینسی پیلوسی

امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان کہلانے والے ایوان زیریں کی ڈیموکریٹ خاتون اسپیکر نینسی پیلوسی کے مطابق انہیں تشویش ہے کہ موجودہ ریپبلکن صدر ٹرمپ بیس جنوری کو ختم ہونے والی اپنے صدارتی عہدے کی مدت کے آخری دنوں میں ممکنہ طور پر کسی ملک پر جوہری ہتھیاروں سے حملہ بھی کر سکتے ہیں۔ پیلوسی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے صدارتی اختیارات کم کیے جانا چاہییں۔

بائیڈن کی حلف برداری، ٹرمپ کا شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

صدارتی اختیارات میں ممکنہ کمی کیسے؟

کسی ملک پر جوہری ہتھیاروں سے حملے کا ممکنہ حکم دینے کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے اختیارات میں جس کمی کی بات کی گئی ہے، اس کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ اول تو امریکا میں ایسے کسی حملے کا حکم دینے کا آئینی اختیار صرف ہوتا ہے صدر کے پاس ہے، دوسرے یہ کہ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب موجود ہی نہیں کہ اس حوالے سے صدارتی اختیارات میں کوئی بھی کمی کیسے اور کس کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔

خود صدر ٹرمپ نے ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ آئندہ چند روز میں کسی ملک پر جوہری ہتھیاروں سے حملے کا حکم دے سکتے ہیں۔ تاہم ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کی تشویش اپنی جگہ ہے کہ ٹرمپ ایسا کر بھی سکتے ہیں۔

ٹوئٹر نے صدر ٹرمپ کے ذاتی اکاؤنٹ پر مستقل پابندی لگا دی

امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر کے طور پر نینسی پیلوسی ملک کے اہم ترین سیاسی عہدوں میں سے ایک پر فائز ہیںتصویر: Reuters/T. Brenner

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل ملی کے ساتھ بات چیت

اسپیکر نینسی پیلوسی کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 'بے قابو ہو جانے کے بعد‘ کوئی نئی جنگ بھی شروع کر سکتے ہیں۔ کانگریس کے ایوان زیریں کی اسپیکر پیلوسی نے کہا کہ انہوں نے جمعہ آٹھ جنوری کی رات اس بارے میں امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی سے بھی بات چیت کی۔

عراقی عدالت کی جانب سے ٹرمپ کی گرفتاری وارنٹ جاری

اس گفتگو میں اس بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا کہ صدر ٹرمپ کو ممکنہ طور پر کوئی فوجی کارروائی شروع کرنے یا کسی جوہری حملے کا حکم دینے سے روکنے کے لیے کس طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔

اس بارے میں جنرل مارک ملی کے ترجمان کرنل ڈیو بٹلر نے تصدیق کی کہ نینسی پیلوسی نے جنرل ملی سے بات چیت کی ہے۔

امریکی کانگریس پر دھاوا بولے جانے کے ذمے دار ٹرمپ بھی ہیں، میرکل

ترجمان نے مزید کوئی تفصیلات بتائے بغیر صرف اتنا کہا، ''جنرل ملی نے نینسی پیلوسی کے ان تمام سوالات کے جوابات دیے، جو انہوں نے جوہری کمان اور اتھارٹی سے متعلق طے شدہ طریقہ کار کے حوالے سے پوچھے تھے۔‘‘

اختیارات کا تاریخی پس منظر

نینسی پیلوسی کی ممکنہ جوہری حملے سے متعلق تشویش کا پس منظر یہ ہے کہ امریکا کی جوہری حملے کر سکنے کی اہلیت کا آغاز دوسری عالمی جنگ کے دوران 1940ء کی دہائی میں ہوا تھا اور تب سے ہی ایسے کسی بھی حملے کا حکم دینے کا قطعی اختیار صرف ملکی صدر کے پاس ہی ہوتا ہے۔

کیپیٹل ہل کو محفوظ قرار دے دیا گیا

اپنے اس اختیار کا عملی استعمال آج تک صدر ہیری ٹرومین کے علاوہ کسی دوسرے امریکی صدر نے نہیں کیا۔ امریکی فضائیہ نے جاپان میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے شہروں پر ایٹم بم صدر ٹرومین ہی کے حکم پر گرائے تھے۔

صدارتی حکم پر عمل درآمد سے ممکنہ انکار

امریکا میں اگر کوئی صدر ملکی مسلح افواج کو کسی دوسرے ملک پر جوہری حملہ کرنے کا حکم دے دے تو ایسا ممکن ہے کہ متعلقہ فوجی افسر اس حکم پر عمل کرنے سے انکار کر دے۔

تاہم ایسا تبھی کیا جا سکتا ہے جب متعلقہ افسر کو ضروری قانونی جائزے کے بعد یہ یقین ہو جائے کہ کسی جوہری ہتھیار یا ہتھیاروں سے حملے کا ایسا کوئی حکم مسلح تنازعات کا احاطہ کرنے والے بین الاقوامی قوانین کے منافی اور غیر قانونی ہو گا۔

ٹرمپ نے جاتے جاتے ایران پر مزید پابندیاں لگا دیں

تاہم متعلقہ فوجی اہلکار کی طرف سے ایسا ممکنہ انکار بھی کوئی یقینی حفاظتی پہلو اس لیے نہیں ہے کہ فوج کی طرف سے صدارتی حکم پر عمل درآمد سے انکار بظاہر ایک 'انہونی‘ سے بات لگتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر کبھی ایسا ہوا بھی، تو یہ اپنی نوعیت کا اولین واقعہ ہو گا کیونکہ تاریخ میں پہلے سے ایسی کوئی مثال موجود ہی نہیں ہے۔

م م / ع س (اے ایف پی، اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں