آخری ’دہشت گرد‘ کے خاتمے تک کارروائی جاری رہے گی، بشار الاسد
14 مارچ 2018
شامی صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ جب تک ملکی سرزمین پر ایک بھی ’دہشت گرد‘ موجود ہے، دہشت گردی کے خلاف حکومتی جنگ جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا ہے کہ ملکی سالمیت اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک سرزمین سے تمام ‘دہشت گردوں‘ کا خاتمہ نہیں کر دیا جاتا۔ اسد کا یہ پیغام صدر دفتر کے سرکاری چینل ٹییلگرام پر بدھ کے دن جاری کیا گیا ہے۔
مشرقی غوطہ میں مزید تیس روز تک فائربندی کے مطالبے کی تجویز
01:58
اس بیان میں بشار الاسد نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ ’مغرب کے اس پراپیگنڈے کا بھی مقابلہ کریں گی، جس میں ملکی خودمختاری اور سالمیت کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘۔ بشار الاسد کا مزید کہنا تھا کہ ساتھ ہی ’دہشت گردوں‘ کے خلاف کارروائی بھی جاری رکھی جائے گی۔
شامی صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب مشرقی غوطہ میں حکومتی فورسز کامیاب پیشقدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دمشق کے اس نواحی علاقے میں ملکی فوج نے روسی عسکری تعاون اور حامی ملیشیا گروہوں کی مدد سے باغیوں کے خلاف مؤثر کارروائی کی ہے۔ اس عسکری مہم کے نتیجے میں حکومتی فورسز کئی اہم مقامات کو بازیاب کرانے میں بھی کامیاب ہو گئی ہیں۔
سرکاری میڈیا کے مطابق مشرقی غوطہ میں پھنسے شہریوں کے انخلاء کی خاطر شامی فوج نے کارروائی شروع کر دی ہے۔ ایک سرکاری ٹیلی وژن پر بدھ کو نشرکردہ ویڈیو رپورٹوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچوں اور خواتین کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
سیریئن آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ شامی فورسز نے مشرقی غوطہ کو عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک حصے کا کنٹرول شامی فوج نے سنبھال لیا ہے جبکہ دوسرے حصے میں باغی اب بھی مزاحمت دیکھا رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقے میں اب بھی کم از کم دو لاکھ شہری پھنسے ہوئے ہیں، جنہیں فوری مدد کی ضرورت ہے۔
رواں ہفتے ہی شامی بحران آٹھویں برس میں داخل ہو گیا ہے۔ مارچ سن ہزار گیارہ میں بشار الاسد کے خلاف پرامن مظاہرے شروع ہوئے تھے تاہم دمشق حکومت کی طرف سے طاقت کے استعمال کے بعد پرتشدد کارروائیاں شروع ہو گئیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شام بھر خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا۔ اس وقت اس خانہ جنگی میں نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی فریق بھی شامل ہو چکے ہیں۔ اس بحران کے نتیجے میں شام اجڑ چکا ہے جبکہ دنیا بھر سے جنگجو عناصر اس ملک میں فعال ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ بشار الاسد کی حکومت شام میں فعال سبھی باغیوں کو بلاتخصیص ’دہشت گرد‘ قرار دیتی ہے۔ بشار الاسد کا دعویٰ ہے کہ امریکا، یورپی یونین، خلیجی ممالک اور ترکی شام کو تقسیم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس آٹھ سالہ خانہ میں البتہ ایران اور روس دمشق حکومت کی بڑی حامی ریاستیں ہیں۔ انہی دونوں ممالک کی مدد کے باعث بشار الاسد کی حامی افواج مشرقی غوطہ سمیت ملک کے متعدد علاقوں سے باغیوں اور انتہا پسندوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
ع ب / اے پی
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔