1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رضا پہلوی کی بین الاقوامی برادری سے اپیل

13 جنوری 2023

ایران کے آخری بادشاہ کے بیٹے رضا پہلوی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گزشتہ برس ستمبر سے جاری ایران حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کے لیے مزید اقدامات کرے۔

DW-TV | Reza Pahlavi im DW-Gespräch
تصویر: DW-TV

ایرانمیں گزشتہ برس ایک 22  سالہ ایرانی کرد خاتون جینا مہسا امینی کی ملک کی اخلاقی پولیس کی حراست میں موت اور ملک میں خواتین کے لیے  لازمی حجاب پہننے  کے قوانین کے ردعمل میں شروع ہونے والے پُر تشدد مظاہرے مسلسل زور پکڑتے رہے یہاں تک کہ تہران کی سخت گیر موقف رکھنے والی مذہبی حکومت کے لیے حالات پر قابو پانا ایک چیلنج بن چُکا ہے۔

احتجاج اور پُر تشدد مظاہروں کی آگ پھیلنے کے بعد سے اب تک  ایرانی حکام نے کم از کم چار افراد کو پھانسی دے دی ہے جنہوں نے مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔

رضا پہلوی نے ڈی ڈبلیو کی شعبہ فارسی کی سربراہ یلدا زربخش کے ساتھ خصوصی بات چیت میں کہا،م''سب سے اہم کردار جو بین الاقوامی برادری ایرانی عوام کی حمایت میں اور حکومت کی جانب سے مزید پھانسیوں یا کسی بھی قسم کے تشدد کی کوششوں کو روکنے میں ادا کر سکتی ہے، وہ ہے ایران کے خلاف پابندیوں اور تعزیری اقدامات کی سطح کو بڑھانے کا عمل۔‘‘

انہوں نے جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کے دور میں اُس کے سیاسی بائیکاٹ، اُسے الگ تھلگ کر دینے اور اُس کے حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنےجیسے اقدامات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایرانی حکومت کے خلاف  عالمی برادری کو ایسا ہی  کرنا چاہیے۔

ایران میں موت کی سزائیں ’ریاستی منظوری سے ہلاکتیں،‘ اقوام متحدہ

1979ء میں شہنشاہ ایران م‍‍‍حمد رضا شاہ پہلوی کا تختہ اُلٹنے کے ساتھ ہی ایران کو اسلامی جمہوریہ قرار دے دیا گیا تھا۔ اُن کے ولی عہد رضا پہلوی امریکہ میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اُن کی سب سے بڑی خواہش ایران میں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کا انعقاد ہے۔ ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''موجودہ حکومت کے خاتمے اور اقتدار کی منتقلی کے ساتھ ملک میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو ہم ممکنہ طور پر اچھی طرح پُر کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس ٹیکنوکریٹس، بیوروکریٹس، دانشوروں اور یونیورسٹی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، مصنفین، صحافی، وکلاء وغیرہ کی کمی نہیں۔‘‘

رضا پہلوی کا تاہم کہنا تھا کہ ان افراد کو ممکنہ طور پر حمایت اور مدد درکار ہوگی، اُن لوگوں کی جو ایران سے باہر ہیں اور پہلے بیرون ملک رہنے والوں کو اس مہم کی قیادت کرنا ہوگی کیونکہ وہ فوری طور پر ملک کے اندر کچھ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا، ''یہ امر میرے لیے واضح ہے کہ ایران میں جس لمحے حکومت کا خاتمہ ہوا، یہ قوتیں آپس میں مل جل کر عبوری دور کو سہل اور کامیاب بنا سکتی ہیں۔‘‘

رضا پہلوی سے ڈوئچے ویلے کی طرف سے کیے گئے چند اہم سوالات اور ان کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:

ڈوئچے ویلے: کیا آپ ایران کے مستقبل میں اپنا کوئی کردار دیکھ رہے ہیں،یا اس میں دلچسپی رکھتے ہیں؟

رضا شاہ پہلوی: میں نے ان 42 سالوں میں ہمیشہ کہا ہے کہ زندگی میں میرا واحد مشن یہ دیکھنا ہے کہ ایرانی عوام بالآخر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں اپنے مستقبل کا خود تعین کر سکیں اور جس دن ایرانی عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے انتخابات میں حصہ لیں گے، اُس دن میرا مشن پورا ہو جائے گا اور میری زندگی میں سیاسی مشن کا خاتمہ ہو گا۔

 

 ڈوئچے ویلے: ایران میں مخالفین کی آواز بند کروانے کے لیے سزائے موت کو بطور ہتھیار استعمال کرنے اور پھانسی کی سزاؤں کا سلسلہ روکنے کے لیے عالمی برادری کو کیا کرنا چاہیے؟

رضا پہلوی: سب سے اہم کردار جو بین الاقوامی برادری ایرانی عوام کی حمایت میں اور حکومت کی مزید پھانسیوں یا کسی بھی قسم کے تشدد کی کوششوں کو روکنے میں ادا کر سکتی ہے، وہ ہے پابندیوں اور تعزیری اقدامات کی سطح کو بڑھانا۔ مثال کے طور پر، ایرانی سفارت کاروں کو نکالنے اور ایران سے اپنے سفیروں کو واپس بلانے جیسے سفارتی اقدامات یا سیاسی بائیکاٹ، جیسا کہ ہم ماضی میں جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے دور میں دیکھ چکے ہیں کے ذریعے۔

 دیگر اقدامات میں حکومتی نمائندوں اور ان  کے رشتہ داروں یا سرپرستوں کے اثاثوں کو روکنے یا منجمد کرنے کا عمل ہے۔ اس کے متوازی ایرانی عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ حمایت کی پالیسی اختیار کی جانا چاہیے اور اس لحاظ سے بین الاقوامی برادری نے بہت کم کام کیا ہے۔ اور جب ایرانی عوام اس حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں، تو وہ تنہا تہران حکومت کی تبدیلی کو ممکن نہیں بنا سکتے۔ خاص طور پر ایک انتہائی جابرانہ حکومت کے خلاف بین الاقوامی برادری کی براہ راست حمایت کے بغیر وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے جیسے لوگ اور دیگر فعال لوگ، چاہے وہ سول سوسائٹی میں ہوں یا انسانی حقوق کے علمبردار، یا سیاسی رہنما، عالمی برادری سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ایران کی سیکولر جمہوری اپوزیشن کے ساتھ حقیقی بات چیت کریں۔

ایران میں مظاہرے، اقوام متحدہ کا فیکٹ فائنڈنگ مشن

ڈوئچے ویلے: آپ مسلح افواج کا کردار کیسا دیکھتے ہیں؟ ایرانی ان پر بھروسہ نہیں کرتے لیکن ان کے خلا کیا کوئی سول تحریک کامیاب ہو سکتی ہے بغیر انہیں ضم کیے؟

رضا پہلوی: میرے خیال میں ایرانی باشندوں کو یہ علم ہے کہ ایرانی فوج کبھی بھی عوام مخالف نہیں رہی۔ حقیقت میں شروع ہی سے جب  IRGC’ ایرانی ریوولوشنری گارڈ کور‘ کی تشکیل عمل میں آئی تو اس کا کام حکومت کی بقا کی ضمانت دینا تھا، کیونکہ تہران حکومت فوج پر بھروسہ نہیں کرتی تھی۔ آئی آر جی سی ملک کی حمایت کے لیے نہیں بنائی گئی تھی۔ اس کا کام نظریاتی انقلاب کا تحفظ ہے۔ یہ فوج نہیں جو عوام کی مخالفت کرتی ہے، یہ آئی آر جی سی ہے جو ایک بڑا مسئلہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایرانی قوم ان لوگوں  پر انحصار کرنا چاہے گی جو اب مایوسی کا شکار ہیں اور عوام کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں، ان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور جب نہتے  شہریوں کو حکومت کے جبر کا سامنا کرنا پڑے  تو وہ ایک قسم کی حفاظت کی ڈھال بن کر عوام کے سامنے کھڑے ہوں۔ ہم یہ منظر  چیک ریپبلک میں دیکھ چُکے ہیں۔ چیکوسلواکیہ، جہاں فوج عوام کے خلاف نہیں کھڑی تھی۔ ایسا منظر ایران میں بھی ہو سکتا ہے۔

ایران میں 26 مظاہرین کو پھانسی کا سامنا ہے، ایمنسٹی

ڈوئچے ویلے: اپوزیشن کے کردار کی بات کریں تو آپ کے خیال میں ایک نئی قیادت، ایک منظم اپوزیشن کہاں سے ابھر سکتی ہے؟

 

رضا پہلوی: ممکنہ طور پر، بہت سارے لوگ ہیں جو عبوری دور کے دوران، حکومت کے خاتمے کے بعد اس خلا کو پُر کر سکتے ہیں مثال کے طور پر ٹیکنوکریٹس، بیوروکریٹس، دانشور حلقوں کے اندر پائے جانے والے منتظمین، یونیورسٹی کے اکیڈیمکس، مصنفین، صحافی، وکلاء وغیرہ اور ان میں سے بہت سے لوگ ایک عبوری حکومت یا کوئی ایسا ڈھانچہ تشکیل دینے کے لیے بہت اچھی طرح سے نمائندہ عناصر ہو سکتے ہیں جسے ایران سے باہر کے لوگوں کی حمایت سے قائم کیا جاسکتا ہے۔ جنہیں پہلے تو قیادت سنبھالنا پڑے گی کیونکہ ایرانی عوام فوری طور پر ملک کے اندر سے کسی کو اقتدار میں نہیں لاسکیں گے ۔ جس لمحے حکومت کا خاتمہ ہوا، یہ قوتیں آپس میں مل سکتی ہیں اور مل کر کام کر کے عبوری دور کو آسان بنا سکتی ہیں۔

 

 

ک م/  ا ب ا

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں