ایران کے آخری بادشاہ کے بیٹے رضا پہلوی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گزشتہ برس ستمبر سے جاری ایران حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کے لیے مزید اقدامات کرے۔
اشتہار
ایرانمیں گزشتہ برس ایک 22 سالہ ایرانی کرد خاتون جینا مہسا امینی کی ملک کی اخلاقی پولیس کی حراست میں موت اور ملک میں خواتین کے لیے لازمی حجاب پہننے کے قوانین کے ردعمل میں شروع ہونے والے پُر تشدد مظاہرے مسلسل زور پکڑتے رہے یہاں تک کہ تہران کی سخت گیر موقف رکھنے والی مذہبی حکومت کے لیے حالات پر قابو پانا ایک چیلنج بن چُکا ہے۔
احتجاج اور پُر تشدد مظاہروں کی آگ پھیلنے کے بعد سے اب تک ایرانی حکام نے کم از کم چار افراد کو پھانسی دے دی ہے جنہوں نے مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔
رضا پہلوی نے ڈی ڈبلیو کی شعبہ فارسی کی سربراہ یلدا زربخش کے ساتھ خصوصی بات چیت میں کہا،م''سب سے اہم کردار جو بین الاقوامی برادری ایرانی عوام کی حمایت میں اور حکومت کی جانب سے مزید پھانسیوں یا کسی بھی قسم کے تشدد کی کوششوں کو روکنے میں ادا کر سکتی ہے، وہ ہے ایران کے خلاف پابندیوں اور تعزیری اقدامات کی سطح کو بڑھانے کا عمل۔‘‘
انہوں نے جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کے دور میں اُس کے سیاسی بائیکاٹ، اُسے الگ تھلگ کر دینے اور اُس کے حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنےجیسے اقدامات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایرانی حکومت کے خلاف عالمی برادری کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔
1979ء میں شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کا تختہ اُلٹنے کے ساتھ ہی ایران کو اسلامی جمہوریہ قرار دے دیا گیا تھا۔ اُن کے ولی عہد رضا پہلوی امریکہ میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اُن کی سب سے بڑی خواہش ایران میں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کا انعقاد ہے۔ ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''موجودہ حکومت کے خاتمے اور اقتدار کی منتقلی کے ساتھ ملک میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو ہم ممکنہ طور پر اچھی طرح پُر کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس ٹیکنوکریٹس، بیوروکریٹس، دانشوروں اور یونیورسٹی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، مصنفین، صحافی، وکلاء وغیرہ کی کمی نہیں۔‘‘
رضا پہلوی کا تاہم کہنا تھا کہ ان افراد کو ممکنہ طور پر حمایت اور مدد درکار ہوگی، اُن لوگوں کی جو ایران سے باہر ہیں اور پہلے بیرون ملک رہنے والوں کو اس مہم کی قیادت کرنا ہوگی کیونکہ وہ فوری طور پر ملک کے اندر کچھ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا، ''یہ امر میرے لیے واضح ہے کہ ایران میں جس لمحے حکومت کا خاتمہ ہوا، یہ قوتیں آپس میں مل جل کر عبوری دور کو سہل اور کامیاب بنا سکتی ہیں۔‘‘
رضا پہلوی سے ڈوئچے ویلے کی طرف سے کیے گئے چند اہم سوالات اور ان کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:
ڈوئچے ویلے: کیا آپ ایران کے مستقبل میں اپنا کوئی کردار دیکھ رہے ہیں،یا اس میں دلچسپی رکھتے ہیں؟
رضا شاہ پہلوی: میں نے ان 42 سالوں میں ہمیشہ کہا ہے کہ زندگی میں میرا واحد مشن یہ دیکھنا ہے کہ ایرانی عوام بالآخر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں اپنے مستقبل کا خود تعین کر سکیں اور جس دن ایرانی عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے انتخابات میں حصہ لیں گے، اُس دن میرا مشن پورا ہو جائے گا اور میری زندگی میں سیاسی مشن کا خاتمہ ہو گا۔
طالبان نہ منظور: کابل ہو یا تہران
یہ تصاویر ایران میں جاری عوامی مظاہروں سے متعلق ہیں۔ ان مظاہروں نے کس طرح ایران کو جکڑا ہوا ہے اور کس طرح بین الاقوامی سطح پر مظاہرین کی حمایت جا رہی ہے۔
تصویر: Andrea Ronchini/NurPhoto/picture alliance
طالبان نہ منظور: کابل ہو یا تہران
اطالوی دارالحکومت روم کے رہائشیوں کا ایک گروپ ایرانی اور افغان خواتین کی حمایت میں جمع ہو کر یکجہتی کا اظہار کرتا ہوا۔ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کرنے پر طالبان کی مذمت اور فارسی اور دیگر کئی زبانوں میں’’عورت، زندگی، آزادی‘‘ کے نعرے ان کے احتجاجی پلے کارڈز پر لکھے تھے۔
تصویر: Andrea Ronchini/NurPhoto/picture alliance
جنرل قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر بینرز نذر آتش
ایرانی قدس فورس کے سابق کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی برسی سے قبل ان کی یاد میں لگائے گئے بینرز اپوزیشن کے پُرتشدد مظاہروں کا نشانہ بنے۔ حالیہ مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوتے ہی کئی بار جنرل سلیمانی کی تصاویر کو احتجاج کے طور پر جلایا گیا۔ انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی کے ایک اہم ستون کی حیثیت حاصل تھی۔ تین جنوری دو ہزار بیس کو بغداد ایئرپورٹ کے قریب ایک امریکی ڈرون حملے میں وہ ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: privat
تہران میں فضائی آلودگی اور شہر کے میئر کی تقریر
تہران میں فضائی آلودگی کی سطح اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ صحت مند افراد کو بھی سانس اور دل کے مسائل لاحق ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ گھر میں بھی وہ کھڑکیاں کھول کر ہوا کی آلودگی محسوس کر سکتے ہیں۔ تہران کے میئر نے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے واقعہ کربلا سے لے کر حالیہ مظاہروں تک ہر چیز پر بات کی اور حکومت کے مخالفین کو ’مسخرہ‘ قرار دیا لیکن فضائی آلودگی کی وجہ سے عوام کی پریشانیوں کا ذکر نہیں کیا۔
تصویر: hamshahrionline
ایران میں مسیحیوں کے نئے سال کی خوشیاں ماند
گرچہ ایران میں اب بھی عوامی مظاہرے جاری ہیں اور حکومت نے اس کے خلاف جبر کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ تاہم ان حالات میں بھی ایرانی کے مسیحی باشندے نئے سال کو خوش آمدید کہنے چرچ گئے۔ تہران میں رہنے والے آرمینیائی باشندے ہولی سرکیس چرچ میں جمع ہوئے تاکہ وہاں پرامن طریقے سے اپنی تقریب کا انعقاد کر سکیں۔
تصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture alliance
زاہدان میں انصاف کی تلاش
زاہدان میں کئی ہفتوں سے ہر جمعہ کو احتجاجی ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ حکومتی فورسز کی کارروائیوں میں اس شہر میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں لیکن احتجاج بدستور جاری ہے۔صوبہ سیستان و بلوچستان میں بھی عوامی بغاوت کی حمایت کی جا رہی ہے۔
تصویر: UGC
ایران کی شطرنج کی نمبر ایک خاتون کھلاڑی کا اسپین کوچ کرنے کا ارادہ
اسلامی جمہوریہ کے پرچم کے ساتھ حجاب کے بغیر قازقستان کے شہر الماتی میں شطرنج کی عالمی چیمپئن شپ میں شرکت کرنے والی ایران میں شطرنج کی نمبر ون خاتون کھلاڑی سارہ خادم الشریعہ اسپین ہجرت کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ علی رضا فیروزجا کے بعد وہ ایران کی دوسری بہترین شطرنج کھلاڑی ہیں، جنہوں نے ملک کا نام روشن کیا ہے۔
تصویر: Lennart Ootes/FIDE/REUTERS
تہران کی آزاد یونیورسٹی میں بسیج کے دفتر میں آتش زدگی
ایران میں طلبا کی ایک خبر رساں ایجنسی کے مطابق، شمالی تہران میں واقع آزاد یونیورسٹی کے بسیج دفتر کو جمعرات 29 دسمبر کی صبح تقریباً 4 بجے ایک نامعلوم شخص نے آگ لگا دی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ یونیورسٹی میں داخل ہوا اور دفتر پر آتش گیر مادے کے ساتھ حملہ کیا۔ بظاہر آگ سے خواتین اور بسیج دفتر کے بیرونی حصے کو نقصان پہنچا۔ بسیج ایران کی پاسداران انقلاب کا ایک نیم فوجی دستہ ہے۔
تصویر: Hamshahri Online
’ اپنی قیمتی جان پر رحم کرو‘
فرانس میں مقیم ایک ایرانی طالب علم محمد مرادی کی خودکشی کے جواب میں حامد اسماعیلیون نے لکھا، ’’کاش میں آپ کے اس فیصلے سے پہلے آپ سے بات کر سکتا اور آپ کو بتاتا کہ ہم اُنہیں شکست دیں گے۔ آپ کی قیمتی اور پیاری زندگی کے ضیاع پر صد افسوس۔‘‘ متعدد ایرانیوں اور لیون شہر کے رہائشیوں نے محمد مرادی کی یاد میں شمعیں روشن کیں۔
تصویر: Maxime Jegat/MAXPPP/dpa/picture alliance
تہران کا بدلا ہوا چہرہ
یہ لندن، پیرس یا نیویارک کی گلی نہیں ہے، یہ کرسمس کے پہلے دن یعنی 25 دسمبر کو تہران کی مرزائی شیرازی اسٹریٹ ہے۔
تصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture alliance
خاموش احتجاج
شاید سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کے شعلے کچھ کم ہو گئے ہوں لیکن ایران کی گلیوں میں جو کچھ ان دنوں نظر آرہا ہے اسے احتجاج کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ خواتین سڑکوں پر حجاب کے بغیر اور پُرسکون انداز میں چل رہی ہیں، 40 سال سے جبری حجاب کا بوجھ اپنے سروں اور چہروں سے اتار کر۔
تصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture alliance
’ ہم ایک جیسے نہیں ہیں‘
اسلامی جمہوریہ ایران میں سزائے موت سنانے اور اس پر عمل درآمد کے خلاف مظاہرے مختلف شکلوں میں جاری ہیں۔ ’’آپ صبح 5 بجے اٹھتے اور نماز پڑھتے ہیں جبکہ میں اسی وقت پھانسی کے خوف میں مبتلا ہوتا ہوں۔ ہم ایک جیسے نہیں ہیں۔‘‘ اردبیلی یونیورسٹی میں یہ تازہ گریفٹی ہے جس پر محسن شکاری اور ماجدرضا رہنورد کے نام درج ہیں۔ ان دونوں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
تصویر: UGC
جہالت اور سچائی
یہ مشترکہ تصویر سوشل نیٹ ورکس پر شائع کی گئی۔ دائیں طرف کی تصویر 13 نومبر کو ہونے والے حکومتی مظاہروں اور ’’یورپ کی سخت سردی کے لیے لوگوں کی امداد‘‘ کے لیے ایک کلیکشن پوائنٹ کے قیام سے متعلق ہے اور بائیں طرف کی خبر گیلان صوبے میں دفاتر اور بینکوں کی بندش سے متعلق ہے۔ ایک صارف نےاس تصویر کی تفصیل میں لکھا، ’’دو تصویروں کے درمیان کا فاصلہ ڈیڑھ ماہ کا نہیں، یہ جہالت اور سچائی کے درمیان کا فاصلہ ہے۔‘‘
تصویر: UGC
دار و رسن اور لہو رستی آنکھیں
ایرانی جشن یلدا سے کچھ دیرقبل ایرانی باشندوں نے دی ہیگ میں ڈچ پارلیمنٹ کے سامنے جمع ہو کر دکھایا کہ ایران میں مظاہرین کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ گلے میں رسیاں، ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے اور ایک طرف خون آلود آنکھیں اور دوسری طرف اسلامی جمہوریہ کا پھانسی کا تختہ اور اس کے جسم پر یورپی یونین کی قینچی۔ اس سے مظاہرین اشارہ دے رہے تھے کہ یورپ ایران میں سزائے موت اور مظاہرین کو کچلنے کےخلاف کچھ کرے۔
تصویر: Phil Nijhuis/ANP/picture alliance
یلدا کی چالیسویں رات
بہت سے ایرانییوں نے اس سال کے یلدا کو خوشی اور مسرت کے ساتھ نہیں بلکہ غم اور سوگ کے ساتھ منایا۔ اس سال بہت سے لوگوں کی ایک نہیں بلکہ کئی قیامت خیز اور طویل راتیں گزریں اور صبح خوف اور بے خوابی کے ساتھ طلوع ہوئی۔ اس سال کا یلدا آغا افضلی کے 40 ویں کے موقع پر آیا، جو ایک 19 سالہ نوجوان تھا۔ اسے احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا تھا اور وہ رہائی کے چند دن بعد اپنے گھر میں ہی انتقال کر گیا تھا۔
تصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture alliance
میکسیکو میں ایرانی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار
میکسیکو کے متعدد شہریوں نے ملکی دارالحکومت میکسیکو سٹی میں ایران کے سفارت خانے کے سامنے جمع ہو کر ایرانی عوام کی بغاوت کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مظاہرین کی رہائی کا مطالبہ کیا اور خاص طور پر امیر نصر آزادانی کو سزائے موت دینے کی مذمت کی۔
تصویر: Gerardo Vieyra/NurPhoto/picture alliance
’یلدا احتجاج‘
اٹھائیس، انتیس اور تیس دسمبر کی ٹیلیفون کالز سوشل میڈیا پر شائع کی گئیں۔ ان کالز میں تمام لوگوں کو مظاہروں اور ہڑتالوں میں حصہ لینے کی دعوت گئی۔ 30 دسمبر کو مظاہرین کے احتجاج کا نقطہ عروج قرار دیتے ہوئے اسے یلدا رات سے تعبیر کیا گیا اور احتجاج کو ’یلدا احتجاج‘ کہا گیا۔ یلدا دراصل طویل ترین رات سے شروع ہونے والا تہوار مانا جاتا ہے۔
تصویر: UGC
ایرانیوں کی بغاوت کی حمایت جرمن دارالحکومت میں
ایران میں ملک گیر احتجاج اور سیاسی قیدیوں کی حمایت میں خواتین کے حقوق کے کارکنوں نے جرمن دارالحکومت میں مظاہرہ کیا۔ قید کیے گئے مظاہرین میں سے کچھ پر جنگ اور فساد پھیلانے کا الزام لگایا گیا ہے اور ایران ان لوگوں کو سزائے موت پر عمل درآمد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تصویر: Paul Zinken/dpa/picture alliance
ایرانی عوام کی بغاوت اور بین الاقوامی برادری کی حمایت
کلکتہ میں فیڈریشن آف ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس آف انڈیا نے ایرانی خواتین کی احتجاجی تحریک کی حمایت کی۔ صنفی امتیاز اور پدرسری نظام پر تنقید کرتے ہوئے، بھارتی طلباء نے ایرانیوں کی ملک گیر تحریک کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اعلان کیا۔
ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد نے عوامی بغاوت کی حمایت کے لیے جرمن شہر فرینکفرٹ میں اسلامی جمہوریہ کے قونصل خانے کے سامنے ایک خیمے میں بھوک ہڑتال اور دھرنا شروع کر دیا ہے۔ ان میں سے کچھ 21 دنوں سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔
تصویر: Boris Roessler/dpa/picture alliance
19 تصاویر1 | 19
ڈوئچے ویلے: ایران میں مخالفین کی آواز بند کروانے کے لیے سزائے موت کو بطور ہتھیار استعمال کرنے اور پھانسی کی سزاؤں کا سلسلہ روکنے کے لیے عالمی برادری کو کیا کرنا چاہیے؟
رضا پہلوی: سب سے اہم کردار جو بین الاقوامی برادری ایرانی عوام کی حمایت میں اور حکومت کی مزید پھانسیوں یا کسی بھی قسم کے تشدد کی کوششوں کو روکنے میں ادا کر سکتی ہے، وہ ہے پابندیوں اور تعزیری اقدامات کی سطح کو بڑھانا۔ مثال کے طور پر، ایرانی سفارت کاروں کو نکالنے اور ایران سے اپنے سفیروں کو واپس بلانے جیسے سفارتی اقدامات یا سیاسی بائیکاٹ، جیسا کہ ہم ماضی میں جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے دور میں دیکھ چکے ہیں کے ذریعے۔
دیگر اقدامات میں حکومتی نمائندوں اور ان کے رشتہ داروں یا سرپرستوں کے اثاثوں کو روکنے یا منجمد کرنے کا عمل ہے۔ اس کے متوازی ایرانی عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ حمایت کی پالیسی اختیار کی جانا چاہیے اور اس لحاظ سے بین الاقوامی برادری نے بہت کم کام کیا ہے۔ اور جب ایرانی عوام اس حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں، تو وہ تنہا تہران حکومت کی تبدیلی کو ممکن نہیں بنا سکتے۔ خاص طور پر ایک انتہائی جابرانہ حکومت کے خلاف بین الاقوامی برادری کی براہ راست حمایت کے بغیر وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے جیسے لوگ اور دیگر فعال لوگ، چاہے وہ سول سوسائٹی میں ہوں یا انسانی حقوق کے علمبردار، یا سیاسی رہنما، عالمی برادری سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ایران کی سیکولر جمہوری اپوزیشن کے ساتھ حقیقی بات چیت کریں۔
ڈوئچے ویلے: آپ مسلح افواج کا کردار کیسا دیکھتے ہیں؟ ایرانی ان پر بھروسہ نہیں کرتے لیکن ان کے خلا کیا کوئی سول تحریک کامیاب ہو سکتی ہے بغیر انہیں ضم کیے؟
رضا پہلوی: میرے خیال میں ایرانی باشندوں کو یہ علم ہے کہ ایرانی فوج کبھی بھی عوام مخالف نہیں رہی۔ حقیقت میں شروع ہی سے جب IRGC’ ایرانی ریوولوشنری گارڈ کور‘ کی تشکیل عمل میں آئی تو اس کا کام حکومت کی بقا کی ضمانت دینا تھا، کیونکہ تہران حکومت فوج پر بھروسہ نہیں کرتی تھی۔ آئی آر جی سی ملک کی حمایت کے لیے نہیں بنائی گئی تھی۔ اس کا کام نظریاتی انقلاب کا تحفظ ہے۔ یہ فوج نہیں جو عوام کی مخالفت کرتی ہے، یہ آئی آر جی سی ہے جو ایک بڑا مسئلہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایرانی قوم ان لوگوں پر انحصار کرنا چاہے گی جو اب مایوسی کا شکار ہیں اور عوام کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں، ان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور جب نہتے شہریوں کو حکومت کے جبر کا سامنا کرنا پڑے تو وہ ایک قسم کی حفاظت کی ڈھال بن کر عوام کے سامنے کھڑے ہوں۔ ہم یہ منظر چیک ریپبلک میں دیکھ چُکے ہیں۔ چیکوسلواکیہ، جہاں فوج عوام کے خلاف نہیں کھڑی تھی۔ ایسا منظر ایران میں بھی ہو سکتا ہے۔
ڈوئچے ویلے: اپوزیشن کے کردار کی بات کریں تو آپ کے خیال میں ایک نئی قیادت، ایک منظم اپوزیشن کہاں سے ابھر سکتی ہے؟
رضا پہلوی: ممکنہ طور پر، بہت سارے لوگ ہیں جو عبوری دور کے دوران، حکومت کے خاتمے کے بعد اس خلا کو پُر کر سکتے ہیں مثال کے طور پر ٹیکنوکریٹس، بیوروکریٹس، دانشور حلقوں کے اندر پائے جانے والے منتظمین، یونیورسٹی کے اکیڈیمکس، مصنفین، صحافی، وکلاء وغیرہ اور ان میں سے بہت سے لوگ ایک عبوری حکومت یا کوئی ایسا ڈھانچہ تشکیل دینے کے لیے بہت اچھی طرح سے نمائندہ عناصر ہو سکتے ہیں جسے ایران سے باہر کے لوگوں کی حمایت سے قائم کیا جاسکتا ہے۔ جنہیں پہلے تو قیادت سنبھالنا پڑے گی کیونکہ ایرانی عوام فوری طور پر ملک کے اندر سے کسی کو اقتدار میں نہیں لاسکیں گے ۔ جس لمحے حکومت کا خاتمہ ہوا، یہ قوتیں آپس میں مل سکتی ہیں اور مل کر کام کر کے عبوری دور کو آسان بنا سکتی ہیں۔