پاکستان اور بھارت سمیت برطانیہ کے متعدد سابق ںوآبادی ممالک میں اچھی انگریزی بولنا دانشوری کی ایک علامت سمجھی جاتی ہے۔ مسئلہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے، جب اچھی انگریزی بولنے کا احساس لوگوں کی تذلیل کا باعث بن جاتا ہے۔
اشتہار
برصغیر میں انگریزوں کے طویل راج کے نتیجے میں اس خطے کے عوام جن احساس کمتریوں میں مبتلا ہوئے، اُن میں سرفہرست انگریزی زبان ہے۔ میں نے سرکاری سکول میں پڑھا، بنیادی انگریزی وہاں سے سیکھی باقی انگریزی ادب پڑھ کر یا انگریزی فلمیں دیکھ کر سیکھی لیکن فخر، عبور اور بات سمجھانے میں آسانی صرف اردو زبان میں ہی پائی۔
انگلش میڈیم سکولوں سے تعلیم یافتہ میرے دوست بتاتے ہیں کہ ان کو سکول میں قومی زبان اردو بولنے پر جرمانہ کر دیا جاتا تھا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ نوجوان تو اردو کا ایک جملہ بھی درست طریقے سے نہیں بول سکتے، پڑھنا اور لکھنا تو خیر دور کی بات ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس پر وہ فخر سے اِس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ انگریزی کے حوالے سے ہم اجتماعی سطح پر ذہنی غلامی کا شکار ہیں۔ اس احساس کو Stockholm syndrome بھی کہا جا سکتا ہے، جس میں مغوی کو اپنے اغوا کار سے ہی لگاؤ ہو جاتا ہے۔
بھارتیوں کو درپیش انگریزی کا مسئلہ
00:53
دنیا میں بہت سے ایسے متعدد ممالک ہیں، جہاں سکونت اختیار کرنے والے تارکین وطن انگریزی نہیں ان ممالک کی قومی زبان ہی سیکھتے اور بولتے ہیں اور اس پر فخر بھی محسوس کیا جاتا ہے، جیسا کہ جرمنی، فرانس، سپین، اٹلی، چین، روس وغیرہ وغیرہ۔
یہ بات سچ ہے کہ انگریزی بولنا اور سمجھنا اس حد تک تو کارآمد ہوسکتا ہے کہ آپ کسی دوسرے ملک میں ہوں تو اپنی بات سمجھا سکیں کیونکہ یہ دنیا کے ستر ممالک کی سرکاری زبان کے ساتھ ساتھ عالمی زبان بھی ہے لیکن شاید اب اس کی بھی ضرورت نہیں رہی کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہر سمارٹ فون میں ایسی ایپس دستیاب ہیں جو کسی بھی زبان کا ترجمہ کرسکتی ہیں۔
اب آتے ہیں اصل مدعا پر، اسلام آباد کے ایک معروف ریستوران کی دو خواتین مالکان کی ویڈیو تو پورا ملک ہی دیکھ چکا ہے، جس میں نو سال سے ان کے لیے کام کرنے والے ایک مینیجر کی انگریزی پر اس کی کھلے عام تضحیک کی جا رہی ہے۔
اس ویڈیو کے وائرل ہونے اور اس پر پیدا ہونے والے تنقیدی ردعمل کے نتیجے میں خواتین مالکان نے غالبا بے دلی کے ساتھ معذرتی ویڈیو بھی جاری کر دی لیکن وہ بھی انگریزی میں ہی۔
اس کھوکھلی وضاحت میں خواتین مالکان نے فرمایا کہ یہ شخص نو سال سے ان کے ساتھ کام کر رہا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے ملازمین سے اچھا برتاؤ کرتی ہیں۔ لیکن حقیقت یوں ہے کہ یہ مینیجر اپنی قابلیت کی بدولت اور سب سے بڑھ کر اپنی مالکان کے تضحیک آمیز رویے کے برعکس اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہا ہے۔
ایک اور بات بھی اہم ہے کہ وہ اگر انگریزی کے بجائے کمزور اردو بولنے پر بھی کسی کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو وہ بھی اتنا ہی قابل مذمت ہونا چاہیے۔
اس ویڈیو نے دو موضوعات پر بحث چھیڑ دی ہے اور دونوں ہی قابل غور ہیں ایک ہمارا انگریزی زبان سے پاگل پن حد تک لگاؤ اور دوسرا جو زیادہ اہم ہے ، وہ ہے 'کام کی جگہ پر ہراساں کرنا‘۔
امید ہے کہ ایسا دوبارہ دیکھنے کو نہیں ملے گا اور یہ بھی یقین ہے کہ اگر کسی کو ایسا کرتے دیکھا گیا تو اس کا حال وہی ہوگا جو ان دو خواتین کہ ساتھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے۔
آخر میں معروف مزاحیہ شاعر انور مسعود صاحب کا شعر اس امید کہ ساتھ کہ آپ انہی کے انداز میں اس کو پڑھیں گے۔
اردو سے ہو کیوں بیزار انگلش سے کیوں اتنا پیار
چھوڑو بھی یہ رٹا یار، ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار
غیر ملکی طلباء کے لئے جرمنی کی مقبول ترین یونیورسٹیاں
جرمنی کا شمار غیرملکی طلباء کے لیے پرکشش ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ انگریزی نہ بولنے والے ممالک میں یہ پہلے نمبر پر آتا ہے۔ یہ جرمنی کی دس مقبول ترین یونیورسٹیاں ہیں۔
تصویر: Peter Himsel
نمبر 10: کولون یونیورسٹی
یہ یونیورسٹی اُس شہر کولون میں واقع ہے، جہاں جرمنی کا سب سے بڑا تہوار ’کارنیوال‘ بھی منایا جاتا ہے۔ اس شہر کے لوگوں کا رویہ دیگر شہروں کی نسبت قدرے دوستانہ ہے۔ ساری دنیا سے اسٹوڈنٹس یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ یہاں سے ٹرین کے ذریعے چند ہی گھنٹوں میں دیگر بڑے یورپی شہروں ایمسٹرڈیم، برسلز اور پیرس پہنچا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نمبر 9:گوئتھے یونیورسٹی فرینکفرٹ
اس یونیورسٹی کا نام جرمنی کے مشہور شاعر یوہان وولفگانگ فان گوئتھے سے منسوب ہے۔ فرینکفرٹ ایک کثیر الثقافتی شہر ہے اور اپنی بلند و بالا عمارتوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ بہت سے مالیاتی اداروں اور بینکوں کے ہیڈکوارٹرز اسی شہر میں ہیں۔
تصویر: Goethe Universität Frankfurt
نمبر 8: یونیورسٹی ڈؤس بُرگ ایسن
اس یونیورسٹی میں 37 ہزار طلباء زیر تعلیم ہے اور اس کا شمار جرمنی کی بڑی یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ سن 2003ء میں دو ہمسایہ شہروں ڈوس بُرگ اور ایسن کی یونیورسٹیوں کا الحاق کر دیا گیا تھا۔ اس علاقے کو صنعتی علاقہ بھی کہا جاتا ہے اور اس کا شمار جرمنی کے گنجان آباد علاقوں میں بھی ہوتا ہے۔
تصویر: Klaus Lemke/SSC
نمبر 7: یونیورسٹی ہائیڈل برگ
اس یونیورسٹی کی بنیاد سن 1364ء میں رکھی گئی تھی اور اس کا شمار جرمنی کی قدیم ترین درسگاہوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال بھی کچھ عرصے تک اسی درس گاہ سے منسلک رہے۔ اس رومانوی شہر سے گزرنے والے دریائے نیکر کے قریب ایک سڑک کا نام بھی علامہ اقبال سے منسوب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نمبر 6: ہومبُولڈ یونیورسٹی برلن
اس تعلیمی ادارے کا شمار بھی جرمنی کے قدیم ترین اداروں میں ہوتا ہے۔ اس یونیورسٹی کے چند فارغ التحصیل طالب علموں نے بہت شہرت حاصل کی، جس کی وجہ سے اس دارے کو بھی ممتاز مقام حاصل ہوا۔ برلن شہر جرمنی کا دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ سیاحتی مرکز کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ پاکستانی سفارتخانہ بھی اسی شہر میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نمبر 5: ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن
پانچویں نمبر پر بھی برلن شہر ہی کی یونیورسٹی آتی ہے۔ سیاحوں کے ساتھ ساتھ اسٹوڈنٹس بھی اس شہر سے محبت رکھتے ہیں۔ نہ صرف انجینئرنگ کے اعتبار سے اس یونیورسٹی کا معیار بہت بلند ہے بلکہ دیگر مغربی یورپی شہروں کی نسبت اس شہر میں رہائشی اخراجات بھی کم ہیں۔
تصویر: TU Berlin/Dahl
نمبر 4: یونیورسٹی (آر ڈبلیو ٹی ایچ) آخن
آخن شہر بیلجیم اور ہالینڈ کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس تکینیکی ادارے کا شمار جرمنی کی سب سے بڑے انجینئرنگ کے اداروں میں ہوتا ہے۔ اس دارے کا موٹو ’مستقبل کے بارے میں سوچو‘ ہے اور حقیقت میں بھی یہ ادارہ ایسا ہی کر رہا ہے۔ درجنوں پاکستانی طلباء یہاں بھی زیر تعلیم ہیں۔
تصویر: Peter Winandy
نمبر 3: ٹیکنیکل یونیورسٹی میونخ
جرمنی کے مشہور ثقافتی شہر میونخ میں دو بڑی یونیورسٹیاں ہیں اور ان میں سے ایک ٹیکنیکل یونیورسٹی میونخ ہے۔ اس دارے کے گزشتہ برس کے اعداد و شمار کے مطابق وہاں ہر پانچ میں سے ایک طالب علم غیر ملکی ہے۔
تصویر: Albert Scharger
نمبر 2: لُڈویگ ماکسی میلین یونیورسٹی میونخ
میونخ کی اس یونیورسٹی کا شمار بھی جرمنی کی قدیم ترین درس گاہوں میں ہوتا ہے۔ 34 نوبل انعام یافتہ افراد کا تعلق اس یونیورسٹی سے ہے۔ لائف اسٹائل میگزین نے گزشتہ برس اس شہر کو ’بہترین طرز زندگی‘ والا شہر قرار دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نمبر 1: فرائی یونیورسٹی برلن
جرمنی کی تعلیمی درسگاہ فرائی یونیورسٹی برلن کی بنیاد 1948ء میں رکھی گئی تھی۔ غیر ملکی اسٹوڈنٹس میں یہ تعلیمی ادارہ بھی بہت مشہور ہے۔ ہومبُولڈ یونیورسٹی برلن کے برعکس یہ سوویت زون میں نہیں تھی۔ اسی وجہ سے اس کا نام فرائی یعنی آزاد یونیورسٹی رکھا گیا تھا۔