1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آخر انگریزی ہماری کمزوری کیوں؟

ابصاء کومل
22 جنوری 2021

پاکستان اور بھارت سمیت برطانیہ کے متعدد سابق ںوآبادی ممالک میں اچھی انگریزی بولنا دانشوری کی ایک علامت سمجھی جاتی ہے۔ مسئلہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے، جب اچھی انگریزی بولنے کا احساس لوگوں کی تذلیل کا باعث بن جاتا ہے۔

Absa Komal
تصویر: privat

برصغیر میں انگریزوں کے طویل راج کے نتیجے میں اس خطے کے عوام جن احساس کمتریوں میں مبتلا ہوئے، اُن میں سرفہرست انگریزی زبان ہے۔ میں نے سرکاری سکول میں پڑھا، بنیادی انگریزی وہاں سے سیکھی باقی انگریزی ادب پڑھ کر یا انگریزی فلمیں دیکھ کر سیکھی لیکن فخر، عبور اور بات سمجھانے میں آسانی صرف اردو زبان میں ہی پائی۔

انگلش میڈیم سکولوں سے تعلیم یافتہ میرے دوست بتاتے ہیں کہ ان کو سکول میں قومی زبان اردو بولنے پر جرمانہ کر دیا جاتا تھا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ نوجوان تو اردو کا ایک جملہ بھی درست طریقے سے نہیں بول سکتے، پڑھنا اور لکھنا تو خیر دور کی بات ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس پر وہ فخر سے اِس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ’کیا یہ ہراسمنٹ نہیں ہے اب‘

مجھے لگتا ہے کہ انگریزی کے حوالے سے ہم اجتماعی سطح پر ذہنی غلامی کا شکار ہیں۔ اس احساس کو Stockholm syndrome  بھی کہا جا سکتا ہے، جس میں مغوی کو اپنے اغوا کار سے ہی لگاؤ ہو جاتا ہے۔

بھارتیوں کو درپیش انگریزی کا مسئلہ

00:53

This browser does not support the video element.

دنیا میں بہت سے ایسے متعدد ممالک ہیں، جہاں سکونت اختیار کرنے والے تارکین وطن انگریزی نہیں ان ممالک کی قومی زبان ہی سیکھتے اور بولتے ہیں اور اس پر فخر بھی محسوس کیا جاتا ہے، جیسا کہ جرمنی، فرانس، سپین، اٹلی، چین، روس وغیرہ وغیرہ۔

یہ بات سچ ہے کہ انگریزی بولنا اور سمجھنا اس حد تک تو کارآمد ہوسکتا ہے کہ آپ کسی دوسرے ملک میں ہوں تو اپنی بات سمجھا سکیں کیونکہ یہ دنیا کے ستر ممالک کی سرکاری زبان کے ساتھ ساتھ عالمی زبان بھی ہے لیکن شاید اب اس کی بھی ضرورت نہیں رہی کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہر سمارٹ فون میں ایسی ایپس دستیاب ہیں جو کسی بھی زبان کا ترجمہ کرسکتی ہیں۔

اب آتے ہیں اصل مدعا پر، اسلام آباد کے ایک معروف ریستوران کی دو خواتین مالکان کی ویڈیو تو پورا ملک ہی دیکھ چکا ہے، جس میں نو سال سے ان کے لیے کام کرنے والے ایک مینیجر کی  انگریزی پر اس کی کھلے عام تضحیک کی جا رہی ہے۔

اس ویڈیو کے وائرل ہونے اور اس پر پیدا ہونے والے تنقیدی ردعمل کے نتیجے میں خواتین مالکان نے غالبا بے دلی کے ساتھ معذرتی ویڈیو بھی جاری کر دی  لیکن وہ بھی انگریزی میں ہی۔

اس کھوکھلی وضاحت میں خواتین مالکان نے فرمایا کہ یہ شخص نو سال سے ان کے ساتھ کام کر رہا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے ملازمین سے اچھا برتاؤ  کرتی ہیں۔ لیکن حقیقت یوں ہے کہ یہ مینیجر اپنی قابلیت کی بدولت اور سب سے بڑھ کر اپنی مالکان کے تضحیک آمیز رویے کے برعکس اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اعلیٰ تعلیم: جرمنی غیر ملکی طلبہ کا پسندیدہ ترین ’نان انگلش‘ ملک

ایک اور بات بھی اہم ہے کہ وہ  اگر انگریزی کے بجائے کمزور اردو بولنے پر بھی کسی کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو وہ بھی اتنا ہی قابل مذمت ہونا چاہیے۔

اس ویڈیو نے دو موضوعات پر بحث چھیڑ دی ہے اور دونوں ہی قابل غور ہیں ایک ہمارا انگریزی زبان سے پاگل پن حد تک لگاؤ اور دوسرا جو زیادہ اہم ہے ، وہ ہے 'کام کی جگہ پر ہراساں کرنا‘۔

امید ہے کہ ایسا دوبارہ دیکھنے کو نہیں ملے گا اور یہ بھی یقین ہے کہ اگر کسی کو ایسا کرتے دیکھا گیا تو اس کا حال وہی ہوگا جو ان دو خواتین کہ ساتھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے۔

آخر میں معروف مزاحیہ شاعر انور مسعود صاحب کا شعر اس امید کہ ساتھ کہ آپ انہی کے انداز میں اس کو پڑھیں گے۔

اردو سے ہو کیوں بیزار انگلش سے کیوں اتنا پیار

چھوڑو بھی یہ رٹا یار، ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں