آدم خور بھارتی شیرنی کو پکڑنے کے لیے کیلوِن کلائن کا پرفیوم
11 اکتوبر 2018
بھارتی رینجرز کے دستے تیرہ انسانوں کی قاتل ایک آدم خور شیرنی کو پکڑنے کے لیے کیلوِن کلائن نامی کمپنی کا ایک پرفیوم استعمال کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اب تک اس شیرنی کو پکڑنے یا ہلاک کر دینے کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔
اشتہار
بھارت کے تجارتی مرکز ممبئی سے جمعرات گیارہ اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ خونخوار شیرنی اب تک مغربی بھارتی ریاست مہاراشٹر میں 13 افراد کی ہلاکت کا سبب بن چکی ہے اور اسے ہلاک کر دینے یا زندہ پکڑ لینے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے ایک باقاعدہ مہم ایک ماہ قبل شروع کی گئی تھی۔
مہاراشٹر کے محکمہ جنگلات کے ایک اعلیٰ اہلکار اے کے مشرا نے اے ایف پی کو بتایا کہ ملکی رینجرز کے دستے اس گوشت خور جنگلی جانور کو زندہ یا مردہ حالت میں قابو کر لینے کے لیے گشتی ٹیموں، انفرا ریڈ کمیروں اور ہاتھیوں سمیت کئی طریقے استعمال کر چکے ہیں، جو سب کے سب بے سود ثابت ہوئے۔
اب لیکن اس شیرنی کو پکڑنے کے لیے کیلوِن کلائن نامی کمپنی کا تیار کردہ ایک پرفیوم استعمال کرنے کی تجویز اس لیے زیر غور ہے کہ چند ماہرین نے ریاستی محکمہ جنگلات کو بتایا تھا کہ اس شیرنی کو کیلوِن کلائن کی Obsession نامی خوشبو استعمال کرتے ہوئے دام میں لایا جا سکتا ہے۔ بھارتی حکام نے اس امکان کی وضاحت اس طرح کی کہ 2013ء میں امریکی ماہرین نے غیر متوقع طور پر دریافت کیا تھا کہ شیروں، چیتوں اور ٹائیگرز جیسے گوشت خور جنگلی جانوروں کو مردوں کے لیے بنایا گیا ’اوبسَیشن‘ نامی پرفیوم استعمال کرتے ہوئے چکمہ دے کر زیر کیا جا سکتا ہے۔
جانوروں کے انوکھے ریکارڈ
بعض جانوروں میں چند ایک ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔
تصویر: Fotolia/photobar
چیتا
بعض جانوروں میں چند ایک ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ کوئی بھی جانور چیتے سے زیادہ تیز نہیں بھاگتا۔ چیتا 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تصویر: Fotolia/stephane angue
شمالی امریکی ہرن
مسلسل دوڑ میں کوئی بھی جانور شمالی امریکا میں پائے جانے والے اس ہرن کا ثانی نہیں ہے۔ یہ ہرن پانچ کلومیٹر تک 60 سے 70 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔ پالتو بکری کے مقابلے میں اس کا دل دو گنا بڑا ہوتا ہے۔
تصویر: Getty Images
شُتر مرغ
کوئی بھی پرندہ اس سے زیادہ تیز نہیں بھاگ سکتا۔ 70 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنا اس کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ یہ مسلسل آدھا گھنٹہ پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔ یہ دنیا کا واحد پرندہ ہے، جس کے پاؤں کی صرف دو انگلیاں ہوتی ہیں اور یہ اُڑ بھی نہیں سکتا۔
تصویر: AP
رپل گدھ
سب سے اونچی پرواز اس افریقی گدھ کی ہے۔ سن 1973ء میں ایک رپل گدھ اُس ہوائی جہاز سے ٹکرایا تھا، جس کی بلندی 11 ہزار دو سو میٹر تھی۔ زیادہ تر پرندے ایک سو سے دو ہزار میٹر کی اونچائی تک ہی اڑتے ہیں۔ ہجرت کرتے ہوئے پرندے کبھی کبھار ہمالیہ کے پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے نو ہزار میٹر کی بلندی تک پہنچتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پوما (کوہستانی شیر)
پوما سب سے اونچی چھلانگ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 50 کلوگرام وزنی پوما بھی حیران کن طور پر زمین سے ساڑھے پانچ میٹر بلندی تک چھلانگ لگا سکتا ہے۔ زمینی جانوروں میں یہ ایک ریکارڈ ہے۔ پانی میں صرف ڈولفن سات میٹر بلندی تک اُچھل سکتی ہے۔
تصویر: Bas Lammers
شکر خورا (ہیمنگ برڈ)
یہ دنیا کا سب سے چھوٹا پرندہ ہے۔ اسی خاندان کی ایک قسم (مکھی چڑیا) دنیا میں قد و قامت کے اعتبار سے پرندوں کی سب سے چھوٹی قسم ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا وزن دو گرام اور لمبائی چھ سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ یہ چڑیا اپنے پروں کو فی سیکنڈ چالیس سے پچاس مرتبہ حرکت دیتی ہے۔
تصویر: Fabian Schmidt
سپرم وہیل
یہ سب سے گہرا غوطہ لگاتی ہے۔ اپنے بچوں کو دودھ پلانے والے جانوروں میں شامل یہ وہ واحد جانور ہے، جو تین ہزار میٹر گہرائی تک غوطہ لگا سکتا ہے اور ایک گھنٹے تک پانی کے نیچے رہ سکتا ہے۔ زیر آب اس کے خون کی گردش صرف دماغ اور دل تک محدود رہتی ہے۔
تصویر: 2010 Universum Film GmbH / Richard Herrmann
افریقی ہرن (اوریکس)
یہ جانور سب سے زیادہ گرمی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا جسمانی درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے، جو ایک انسان کے لیے موت ہے۔ اس کی شہ رگ کے قریب نسوں کا ایک جال خون کے لیے ایئر کنڈیشننگ کا کام دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ہرن کئی ہفتوں تک پانی کے بغیر رہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/zb
چمگادڑ
ان سے بہتر کوئی نہیں سن سکتا۔ جانوروں کی دنیا میں سب سے بہتر قوت سماعت رکھنے والے کان چمگادڑوں کے ہوتے ہیں۔ شکار کے وقت یہ جانور ایسی آوازیں بھی سن لیتا ہے، جو محض حساس آلات کی مدد سے سنی جا سکتی ہیں۔ یہی صلاحیت شکار کے دوران بھی چمگادڑوں کے کام آتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پِسو
یہ چھوٹے چھوٹے پِسو ہائی جمپ لگانے کے چیمپئن ہیں۔ پِسو اپنی جسمانی لمبائی سے دو سو گنا اونچی چھلانگ لگا سکتے ہیں۔ ٹِڈّے کی کارکردگی اس سے بھی بہتر ہے، جو اپنے قد سے چار سو گنا بلند چھلانگ لگا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
10 تصاویر1 | 10
ایسا اس وجہ سے ممکن ہو سکتا ہے کہ اس پرفیوم کی تیاری میں مصنوعی طور پر بنایا گیا ویسا ہی مشک استعمال ہوتا ہے، جیسا شیروں کے جسم میں پایا جاتا ہے اور شیرنیوں کے لیے جسمانی اور جذباتی کشش کا باعث ہوتا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق اَونی (مہاراشٹر کی صوبائی زبان میں ’زمین‘) نامی اس شیرنی کو پکڑنے کے لیے یہ طریقہ اس مثال کی وجہ سے بھی کامیاب ثابت ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل جنوبی بھارتی ریاست تامل ناڈو میں بھی ایک ٹائیگر کو پکڑنے کے لیے یہی پرفیوم استعمال کیا گیا تھا۔
بھارتی رینجرز اب اس شیرنی کی جان کے پیچھے ہیں لیکن جنگلی حیات کی حفاظت کے لیے سرگرم کارکنوں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں ایک اپیل بھی دائر کر دی تھی کہ رینجرز کو اس شیرنی کو ہلاک کرنے سے روکا جائے۔ عدالت نے تاہم گزشتہ ماہ یہ اپیل مسترد کر دی تھی۔
مہاراشٹر کے صوبائی حکام کے مطابق اَونی نہ صرف پچھلے چند ماہ کے دوران اس ریاست میں 13 انسانوں کی موت کی وجہ بن چکی ہے بلکہ یہ شبہ بھی ہے کہ یہی شیرنی 2016ء اور 2017ء میں کم از کم چھ دیگر انسانوں کو بھی چیر پھاڑ کر کھا گئی تھی۔
م م / ع ا / اے ایف پی
ہائبرڈ جانور، قدرت کا کرشمہ یا ارتقا؟
لائیگرز، ٹیگرون اور گرولر ریچھ۔ جی نہیں، یہ نقلی مخلوقات نہیں بلکہ دو مختلف حیوانی نسلوں یا اسپیشیز کے اختلاط سے جنم لینے والے جانور ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/Tiziana Fabi
جانوروں کی غیرعمومی دنیا
عموماﹰ ہائبرڈ جانور کسی خیال کے تحت بنائے جاتے ہیں، تاہم کبھی کبھی قدرتی قوتیں بھی جانوروں کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر لے جاتی ہیں جہاں وہ دوسری انواع کے جانوروں سے اختلاط کرتے ہیں اور اس طرح نئے، غیر معمولی اور عجیب و غریب ’کراس برِیڈ‘ جانوروں کی پیدائش ممکن ہو جاتی ہے۔
تصویر: imago/ZUMA Press
ماحول کا اثر
ایسا ہی ایک جانور جو قدرتی طور پر دو اسپیشیز کے اختلاط سے وجود میں آیا، وہ ہے گرولر ریچھ۔ یہ جانور براؤن اور سیفد پولر ریچھ کے ملاپ کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ کرہء شمالی پر برف پگھلنے کے نتیجے میں یہ پولر ریچھ جنوب کی جانب بڑھ رہے ہیں جب کہ گرم ہوتے موسم کی وجہ سے عام ریچھ شمال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان دونوں انواع کے اختلاط سے ریچھوں کی یہ نئی نسل جنم لے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Urquhart
آزاد تیراکی
سائنس دان قدرتی طور پر مختلف اسپیشیز کے اس اختلاط کو ’ارتقا میدان عمل میں‘ قرار دے رہے ہیں۔ آسٹریلوی ساحلوں پر مختلف طرح کی ’سیاہ نوک دار‘ شارک مچھلیاں ایسی ہی قدرتی کارستانی کا نتیجہ ہیں۔ یہ نئی مخلوق سرد اور گرم دونوں طرح کے پانیوں میں بقا کی صلاحیت کی حامل ہے۔
تصویر: picture-alliance/WILDLIFE
معدومیت کے ممکنہ خطرات
یہ سب کچھ مثبت بھی نہیں ہے۔ اس قدرتی ارتقائی عمل کے نتیجے میں بعض اسپیشیز کے مکمل طور پر معدوم ہو جانے کے خطرات بھی پیدا ہو گئے ہیں، جیسے کہ قطبی ریچھوں کے لیے۔ ان کی تعداد میں کمی کی وجہ سے مستقبل میں پولر ریچھ براؤن ریچھوں سے اختلاط کر پائیں گے اور نتیجہ ان کی اپنی نوع کے خاتمے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/P. J. Richards
غیرذمہ دار برِیڈر
ہائبرڈ جانوروں میں بہت سوں کو جینیاتی مسائل کا سامنا رہتا ہے اور یہ بیماریوں سے جلد متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ بانجھ پن کے ساتھ بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایسا ہی ایک جانور نر شیر اور مادہ چیتا کے اختلاط سے پیدا ہونے والا ’لائیگر‘ ہے۔ یہ ’بہت بڑی بلی‘ پیسہ بنانے کے لیے مصنوعی طور پر تیار کی گئی، کیوں کہ قدرتی جنگلات میں اس کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Kurskov
غیرمتوقع آمد
چڑیا گھروں میں ہائبرڈ بریڈنگ کو روکا جا سکتا ہے، تاہم قدرتی طور پر ہونے والی اس بریڈنگ کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ مثلاﹰ آئرلینڈ کے ایک فارم میں بھیڑ اور بکری کی نسلوں نے قدرتی طور پر آپس میں اختلاط کیا اور نتیجہ ان دونوں انواع کی خصوصیات کے حامل ایک نئی نسل کے جانور کی پیدائش کی صورت میں نکلا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Murphy
قدرت پر کس کو بس
ہر مثبت اور منفی بات سے پرے، کچھ جانور اپنے قدرتی احساس سے مجبور ہو کر سب کو حیران کر دیتے ہیں۔ سن 2013ء میں اٹلی میں ایک زیبرا خاردار تاروں سے بنی دیوار پھلانگ کر ایک گدھی تک پہنچ گیا۔ اس واقعے کے بعد ’زونکی‘ پیدا ہوا، جو ’زیبرا‘ اور ’ڈونکی‘ کے ملاپ کا نتیجہ تھا۔