1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’آرام دہ خواتین‘‘ پر جاپانی معذرت تبدیل نہیں ہو گی، شانزو آبے

14 مارچ 2014

جاپانی وزیراعظم شانزو آبے نے جمعے کے روز کہا ہے کہ ان کی حکومت سن 1993ء میں ’کمفرٹ ویمن‘ یا ’آرام دہ خواتین‘ سے متعلق تاریخی معذرت پر نظر ثانی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔

تصویر: AP

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ جنگ کے دور میں نشانہ بننے والی متاثرہ خواتین کے دکھ اور درد کو پوری شدت سے محسوس کرتے ہیں۔

آبے کی جانب سے ماضی میں بھی ایسا ہی بیان سامنے آیا تھا، تب بھی ان کی حکومت پر ملکی سطح پر کڑی تنقید کا آغاز ہوا تھا۔ اُس وقت کہا گیا تھا کہ ٹوکیو حکومت ’کونو اسٹیمنٹ‘ کہلائی جانے والی سرکاری معذرت پر نظرثانی کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس حکومتی معذرت میں دوسری عالمی جنگ کے دوران کوریا، فلپائن، انڈونیشیا، تائیوان اور چین سے تعلق رکھنے والی ان ’سیکس سلیوز‘ یا ’جنسی غلاماؤں‘ سے معذرت کی گئی تھی، جنہیں جاپانی فوجیوں کو سکون فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

اس سلسلے میں کسی مجوزہ نظرثانی کی خبروں کے بعد متعدد ممالک میں مظاہرے ہوئے ہیںتصویر: AP

معتبر تاریخ دانوں کے مطابق ایسی خواتین کی تعداد دو لاکھ کے قریب تھی، جو اس درندگی کا نشانہ بنی تھیں۔ ایسی خواتین کو جاپان میں عام زبان میں ’آرام دہ خواتین‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جمعے کے روز شانزو آبے نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی کابینہ ماضی میں خواتین کے ساتھ پیش آنے والے اس عمل سے متعلق سرکاری معذرت کو مکمل طور پر تسلیم کرتی ہے اور اس میں کسی ردوبدل کا ارادہ نہیں رکھتی۔

جاپانی وزارت خارجہ سے جاری کردہ اپنے بیان میں شانزو آبے کا کہنا تھا، ’جہاں تک کمفرٹ ویمن معاملے کا تعلق ہے، میں ان کے درد کو پوری طرح محسوس کرتا ہوں اور سمجھ سکتا ہوں کہ ان خواتین نے کیسے بھیانک درد اور دکھ کا سامنا کیا ہو گا۔ یہ وہ احساس ہے، جس میں میں پچھلی حکومتوں کے ساتھ پوری طرح متفق ہوں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی حکومت یا کابینہ کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ کونو اسٹیٹمنٹ میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی کریں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے کہا تھا کہ شانزو آبے کی حکومت یہ جائزہ لے رہی ہے کہ آیا اس سرکاری معذرت کے مسودے کی تیاری میں کہیں جنوبی کوریا تو شامل نہیں تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں