1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آرمینیائی قتل عام نسل کشی تھا، امریکی کانگریس: ترکی ناراض

30 اکتوبر 2019

ترکی نے آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دینے کے امریکی کانگریس کے فیصلے کو ’بہت بڑی غلطی‘ اور ’بے معنی سیاسی اقدام‘ قرار دیا ہے۔ واشگٹن میں امریکی ایوان نمائندگان نے یہ فیصلہ منگل انتیس اکتوبر کی رات کیا۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Dovarganes

امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان کہلانے والے ایوان زیریں نے گزشتہ رات ہونے والی رائے شماری میں ایک ایسی قرارداد اکثریتی رائے سے منظور کر لی، جس میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں 1915ء سے لے کر 1917ء تک جاری رہنے والے آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کو باقاعدہ طور پر نسل کشی قرار دیا گیا ہے۔ یوں امریکا نے یہ بات سرکاری طور پر تسلیم کر لی ہے کہ یہ قتل عام نسل کشی تھا۔

اس قرارداد کی منظوری کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ ماضی میں امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں عشروں تک ایسی کئی قراردادیں پیش کی جاتی رہی ہیں، مگر ان میں سے کل رات سے پہلے تک کوئی ایک بھی منظور نہیں ہو سکی تھی۔

امریکی ایوان نمائندگان نے اب یہ تاریخی قدم ایک ایسے وقت پر اٹھایا ہے، جب شمالی شام میں کردوں کے خلاف ترک فوجی آپریشن کی وجہ سے واشنگٹن اور انقرہ حکومتوں کے مابین پہلے ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ کانگریس کا یہ فیصلہ امریکا کے ترکی کے ساتھ روابط پر مزید بوجھ اور ان میں تناؤ کا سبب بنے گا۔

نیٹو کے دو رکن ممالک کے سربراہان: ترک صدر ایردوآن، دائیں، اور امریکی صدر ٹرمپتصویر: Reuters/T. Zenkovich

اب تک تیس ممالک اس موقف کے حامی

آرمینیا کافی عرصے سے بین الاقوامی برادری سے یہ مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ گزشتہ صدی کے دوران عثمانی ترکوں کے ہاتھوں آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کو باقاعدہ طور پر نسل کشی تسلیم کرے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران دنیا کے 30 ممالک ایسا کر بھی چکے ہیں، جن میں سے امریکا نے یہی فیصلہ کل منگل کی رات کیا۔

دنیا کے ان ڈھائی درجن ممالک کی طرف سے آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کو نسل کشی تسلیم کر لینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان ریاستوں اور ترکی کے مابین تعلقات کھچاؤ کا شکار ہو گئے۔

ترکی کا نسل کشی سے مسلسل انکار

پہلی عالمی جنگ کے بعد اور سلطنت عثمانیہ کے اختتام پر وجود میں آنے والی جدید ترک جمہوریہ کا اب تک یہی موقف رہا ہے کہ پہلی عالمی جنگ کے دوران سلطنت عثمانیہ میں رہنے والے آرمینیائی باشندوں کی عثمانی دستوں کے ساتھ لڑائی میں بہت سے آرمینیائی باشندے مارے تو گئے تھے لیکن اس سلسلے میں جو اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں، وہ درست نہیں ہیں۔

ساتھ ہی انقرہ حکومت ایک صدی سے بھی زیادہ پرانے اس تنازعے کے بارے میں یہ بھی کہتی ہے کہ تب آرمینیائی باشندوں کی عثمانی ترکوں کے ہاتھوں ہلاکتوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی کہ اسے نسل کشی کہا جا سکے۔

قرارداد کی حمایت پر فخر ہے: پیلوسی

امریکی ایوان نمائندگان میں اس موضوع پر قرارداد کی منظوری کے بعد اس ایوان کی ڈیموکریٹ اسپیکر نینسی پیلوسی نے کہا کہ انہیں فخر ہے کہ انہوں نے اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا ور یہ پارلیمانی تحریک منظور بھی کر لی گئی۔ اگرچہ سیاسی طور پر یہ قرارداد عملی سے زیادہ علامتی نوعیت کی ہے، تاہم پھر بھی اس کی حمایت میں 405 اور مخالفت میں صرف 11 ووٹ ڈالے گئے۔

اس قرارداد کی منظوری کے بعد ایوان نمائندگان نے بھاری اکثریت سے ایک ایسی دوسری قرارداد بھی منظور کر لی، جس میں صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شمالی شام میں انقرہ کے دستوں کے فوجی آپریشن کی وجہ سے ترکی کے خلاف پابندیاں عائد کریں۔

امریکا کی 'بہت بڑی غلطی‘

ترک وزارت خارجہ نے امریکی کانگریس میں آرمینیائی باشندوں سے متعلق اس قرارداد کی منظوری کے بعد جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ ترکی اس قرارداد کو مسترد کرتا ہے، جو ایک 'بہت بڑی غلطی‘ اور ایک 'بے معنی سیاسی اقدام‘ ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گہا کہ یہ قرارداد صرف 'آرمینیائی لابی اور ترکی مخالف گروپوں‘ کے لیے منظور کی گئی ہے۔

انقرہ میں ترک وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا، ''امریکا کی طرف سے ترکی کے خلاف پابندیاں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی روح کے منافی تھیں۔‘‘ اس کے علاوہ ان پابندیوں سے اس فائر بندی معاہدے کی بھی نفی ہوتی تھی، جو شمالی شام کے بارے میں ترکی اور ٹرمپ انتظامیہ کے مابین 17 اکتوبر کو طے پایا تھا۔

انقرہ میں امریکی سفیر کی طلبی

ترکی کے سرکاری  خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق امریکی ایوان نمائندگان میں اس قرارداد کی منظوری کے بعد آج بدھ تیس اکتوبر کو ترک وزارت خارجہ نے انقرہ میں تعینات امریکی سفیر کو وضاحت کے لیے دفتر خارجہ میں طلب کر لیا۔

اس دوران امریکی سفیر کو بتایا گیا کہ پہلی عالمی جنگ کے دوران سلطنت عثمانیہ میں ترک دستوں کے ہاتھوں بہت سے آرمینیائی باشندوں کی ہلاکتیں تو ہوئی تھیں، تاہم ایسا کسی منظم انداز میں نہیں کیا گیا تھا، اور اسی لیے انہیں نسل کشی کہنا غلط ہے۔

م م / ع ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں