1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

آرمینیا اور آذربائیجان میں جنگ بندی معاہدہ ہو گیا

17 نومبر 2021

آرمینیا کی حکومت کا کہنا ہے کہ آذربائیجان کے ساتھ مسلح جھڑپوں کے بعد ماسکو کی مدد سے جنگ بندی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ آرمینیا کے مطابق ان جھڑپوں میں آذربائیجان کے فورسز کے ہاتھوں اس کے 15فوجی ہلاک ہوئے۔

Berg-Karabach | Soldaten aus Armenien
تصویر: Karen MINASYAN/AFP

آرمینیا کی وزارت دفاع نے منگل کی رات دیر گئے اعلان کیا کہ روس کی مدد سے آذربائیجان کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ طے پا گیا، جس کی وجہ سے سرحد پر ہونے والی مسلح جھڑپیں رک گئی ہیں۔ اس سے قبل آرمینیائی حکومت نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پرانے دشمنوں کے ساتھ تازہ ترین جھڑپوں میں اس کے متعدد فوجی ہلاک ہو گئے۔

جنگ بندی کیسے ممکن ہوئی؟

جنگ بندی کا یہ اعلان ایک ایسے وقت ہوا جب یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے کہا کہ انہوں نے آذربائیجان کے صدر الہام علی یوف اور آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان سے بات چیت کی اور ان سے کہا ہے کہ ''خطے کی مشکل صورتحال'' کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرنے کے بجائے فوری طور جنگ بندی کا آغاز کریں اور کشیدگی کو ختم کریں۔

انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''یورپی یونین جنوبی کوہ قاف علاقے کی خوشحالی اور اس کے استحکام کے لیے کشیدگی پر قابو پانے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کے لیے پر عزم ہے۔''

فرانس کی وزارت خارجہ نے بھی یورپی کونسل کے صدر کے بیان کی حمایت کی اور اپنے ایک بیان میں کہا، ''فرانس تمام فریقوں سے اس جنگ بندی کا احترام کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جس کا اعلان انہوں نے سہ فریقی مذاکرات کے بعد9 نومبر 2020 کو کیا تھا۔''

اس سے قبل آرمینیا کی حکومت نے کہا تھا کہ آذربائیجان کے ساتھ اس تازہ ترین لڑائی میں سرحد پر اس کے کم از کم 15 فوجی ہلاک ہو گئے جبکہ آذربائیجان کے فورسز نے اس کے 12 فوجیوں کو پکڑ لیا ہے۔ اس صورت حال کے پیدا ہونے پر حکومت نے سرحد کے دفاع میں روس سے مدد کی درخواست کی تھی۔

تصویر: Str/AA/picture alliance

ادھر آذربائیجان کی فوج نے کہا کہ اس تازہ لڑائی میں اس کے صرف دو فوجی زخمی ہوئے ہیں۔

اس دوران کریملن نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ روسی صدر ولادمیر پوٹن نے آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان سے فون پر بات چیت کی ہے۔ انٹر فیکس نیوز ایجنسی کے مطابق روس کے وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے بھی آرمینیا اور آذربائیجان کے وزرا دفاع کے ساتھ بات چیت کی اور ان سے فوری طور پر لڑائی روکنے اور کشیدگی کو ختم کرنے کو کہا۔

نگورنو کاراباخ کا تنازعہ

دونوں ملکوں کے درمیان سرحد پر یہ تازہ جھڑپیں متنازعہ نگورنو کاراباخ علاقے پر لڑی جانے والی جنگ کے ایک برس مکمل ہونے پر ہوئی ہیں، جس میں 6,500 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ یہ جنگ چھ ہفتوں تک چلی تھی اور پھر ماسکو کی ثالثی سے ایک امن معاہدہ طے پایا تھا اور جنگ ختم ہوگئی تھی۔ تاہم آرمینیا کو نگورنوکارا باخ کا ایک بڑا علاقہ چھوڑنا پڑا تھا۔  

مسلم اکثریتی آذربائیجان اور آرتھوڈکس مسیحی اکثریتی آرمینیا کے مابین کشیدگی کا باعث نگورنو کاراباخ کا علاقہ ہے۔ یہ علاقہ آذربائیجان کا حصہ ہے لیکن سابقہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سن 1991ء میں یہاں کے نسلی علیحدگی پسندوں نے اس پر قبضہ کرتے ہوئے اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔ اس تنازعے میں اب تک تقریباً تیس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ برس ہونے والی جنگ میں نگورنو کاراباخ کے زیادہ تر علاقوں پر آذربائیجان نے دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔

جس علاقے میں گزشتہ برس جھڑپیں ہوئی تھیں، وہاں روسی امن فوجی تعینات ہیں۔ آرمینیا میں روس کا ایک فوجی اڈہ بھی موجود ہے جبکہ اس تنازعے میں آذربائیجان کو ترکی کی حمایت حاصل ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

’جرمنی اور ترکی کے مابین کشیدگی‘

03:17

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں