1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

آرمینیا کا آذربائیجان کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان

15 ستمبر 2022

آرمینیا میں سکیورٹی حکام نے نگورنو کاراباخ کے آس پاس دو دن کی گولہ باری کے بعد جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ حالانکہ آذربائیجان کی وزارت دفاع کی جانب سے ابھی تک اس پیش رفت کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

Situation in Armenia
تصویر: Alexander Patrin/TASS/dpa/picture alliance

آرمینیا اور آذربائیجان نے مبینہ طور پر جنگ بندی کے ایک معاہدے پر اتفاق کر لیا ہے۔ آرمینیا کے ایک سینیئر سیکورٹی اہلکار نے بدھ کی رات کو دیر گئے اس کی اطلاع دی۔

آرمینیا کی سلامتی کونسل کے سکریٹری آرمین گریگوریان نے ٹیلیویژن پر نشر ہونے والے اپنے ایک بیان میں بتایا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی شراکت سے جنگ بندی طے پا گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی مقامی وقت کے مطابق رات کے 8 بجے سے نافذ ہوگئی۔

یہ اعلان پچھلے اس معاہدے کے بعد سامنے آیا ہے، جو روس کی مدد سے منگل کے روز طے پایا تھا، تاہم چند گھنٹے کے بعد ہی ناکام ہو گیا تھا۔

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان سرحدی جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک

گریگوریان کے اعلان سے چند گھنٹے قبل آرمینیا کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ گولہ باری بند ہو گئی ہے، تاہم اس نے جنگ بندی کے کسی معاہدے کا ذکر نہیں کیا تھا۔

آذربائیجان کا جنگ بندی پر کوئی تبصرہ نہیں

اس تازہ جنگ بندی معاہدے کے بارے میں آذربائیجان کی طرف سے ابھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے اور آذربائیجان کی وزارت دفاع نے ابھی تک اس کی تصدیق بھی نہیں کی ہے۔

ابتدا میں دونوں ممالک نے اشتعال انگیزی کے لیے ایک دوسرے پر الزام عائد کیا تھا۔ سرحد پر دو روز تک ہونے والی گولہ باری میں 150 سے زائد فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

 آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان نے بدھ کے روزکہا تھا کہ آذربائیجانی فورسز نے جھڑپوں کے دوران آرمینیائی علاقے کے 10 مربع  کلومیٹر کے رقبے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

پشینیان نے ملکی پارلیمان کو یہ بھی بتایا کہ منگل کی صبح لڑائی شروع ہونے کے بعد سے ان کے ملک کے 105 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ادھر  آذربائیجان نے بھی اپنے 50 فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

نگورنو کاراباخ میں جھڑپوں کا آغاز منگل کی علی الصبح ہوا تھا اور دونوں ہی ممالک کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دوسری جانب سے ہونے والی اشتعال انگیزی کے خلاف متناسب جوابی کارروائی شروع کی تھیتصویر: Alexander Patrin/TASS/dpa/picture alliance

اس سے پہلے بدھ کے روز ہی ہزاروں مظاہرین آرمینیا کے دارالحکومت یریوان کی سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے وزیر اعظم نکول پشینیان پر الزام لگایا کہ وہ آذربائیجان کو خوش کرنے کے لیے اپنے ملک کے ساتھ غداری کر رہے ہیں۔ مظاہرین نے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا۔

ایک دوسرے پر الزام تراشی

نگورنو کاراباخ میں جھڑپوں کا آغاز منگل کی علی الصبح ہوا تھا اور دونوں ہی ممالک کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دوسری جانب سے ہونے والی اشتعال انگیزی کے خلاف متناسب جوابی کارروائی شروع کی تھی۔

آرمینیا کی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ''منگل کو صبح تقریبا ًایک بجے کے بعد آذربائیجان نے توپ خانے اور بڑی صلاحیت والے آتشیں اسلحے کے ساتھ، گورس، سوٹک اور جرموک کے شہروں کی سمت میں آرمینیائی فوجی ٹھکانوں پر شدید گولہ باری کی۔''

آرمینیا اور آذربائیجان امن کے بعد اب ’اگلا قدم‘ بڑھائیں،پوٹن

لیکن آذربائیجان نے آرمینیا پر یہ الزام عائد کیا کہ اس نے پیر کی رات کو سرحدی اضلاع دشکیسان، کیلبازار اور لاشین کے قریب بڑی تعداد میں بارودی سرنگیں بچھانے کے ساتھ ہی ہتھیار جمع کر کے ''بڑے پیمانے پر تخریبی کارروائیاں '' شروع کی تھیں۔

آذربائیجان کی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ اس کی افواج نے آرمینیائی فوج کی اشتعال انگیزی کے رد عمل میں، جو جوابی اقدامات کیے ہیں، وہ مقامی سطح کے ہیں اور ان کا مقصد اس عسکری ساز و سامان کو نشانہ بنانا ہے، جو فائرنگ کے مقامات سے استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔''

نگورنوکاراباخ کا دیرینہ تنازعہ

 نگورنوکاراباخ کے علاقے میں آرمینیائی نسل کے لوگ آباد رہے ہیں، جس پر حالیہ دہائیوں میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان دو جنگیں ہو چکی ہیں۔

اس علاقے پر پہلے آذربائیجان کا کنٹرول تھا تاہم تقریباً 30 برسوں تک آرمینیائی علیحدگی پسندوں کے قبضے میں رہا۔ لیکن سن 2020 میں چھے ہفتے کی جنگ کے بعد آذربائیجان نے اس کے بیشتر حصے پر اپنا کنٹرول دوبارہ بحال کر لیا اور پھر روس کی ثالثی میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد یہ علاقہ آذربائیجان کو سونپ دیا گیا۔

آرمینیا کے زیر قبضہ لاچن پر بھی آذربائیجان کا کنٹرول

گزشتہ ہفتے آرمینیا نے آذربائیجان پر سرحدی فائرنگ کے تبادلے میں اس کے ایک فوجی کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ لیکن  آذربائیجان کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں آرمینیا کی فوج بھی اس کے فوجیوں پر فائرنگ کرتی رہی ہے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، انٹرفیکس، ڈی پی اے)

آرمینیائی ’نسل کشی‘ میں جرمنی کا کردار

02:52

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں