آرمین لاشیٹ جرمن چانسلر میرکل کے جانشین بننے کے اور قریب
20 اپریل 2021
جرمن قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے سربراہ لاشیٹ چانسلر میرکل کے جانشین بننے کے ایک قدم اور قریب ہو گئے ہیں۔ سی ڈی یو کی مرکزی مجلس عاملہ نے لاشیٹ کی چانسلرشپ کے لیے امیدواری کی حمایت کر دی ہے۔
اشتہار
آرمین لاشیٹ جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے وزیر اعلیٰ ہیں اور انہیں چند ماہ قبل چانسلر میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کا مرکزی سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔ وہ اسی سال ہونے والے قومی پارلیمانی انتخابات کے نتیجے میں چانسلر میرکل کے جانشین کے طور پر ملکی حکومت کے اگلے سربراہ بننا چاہتے ہیں۔
اس بارے میں کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی مرکزی مجلس عاملہ کے کل رات ہونے والے ایک اجلاس میں طویل مشاورت کے بعد آج منگل کو علی الصبح پارٹی کی مرکزی قیادت نے لاشیٹ کی چانسلرشپ کے لیے امیدواری کی حمایت کر دی۔ سی ڈی یو کی مرکزی مجلس عاملہ کے اس اجلاس میں اس کے تمام 40 ارکان شریک ہوئے۔ ان میں سے 31 نے چانسلرشپ کے لیے آرمین لاشیٹ کی امیدواری کی حمایت کی۔
مارکوس زوئڈر کے لیے صرف بائیس فیصد تائید
جرمنی میں قدامت پسند یونین جماعتیں دو ہیں۔ ایک انگیلا میرکل کی پارٹی سی ڈی یو اور دوسری جنوبی صوبے باویریا کی سیاسی جماعت جو کرسچن سوشل یونین یا سی اسی یو کہلاتی ہے۔ یہ پارٹی نا صرف باویریا میں حکمران ہے بلکہ سیاسی طور پر سی ڈی یو کی ہم خیال جماعت بھی ہے۔ اسی لیے جرمن پارلیمان میں ان دونوں جماعتوں کے ارکان کا پارلیمانی حزب بھی ایک ہی ہے، جس میں بہت بڑی اکثریت سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والے ارکان کی ہوتی ہے۔
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔
باویریا کے وزیر اعلیٰ اور سی ایس یو کے سربراہ مارکوس زوئڈر بھی چاہتے ہیں کہ انہیں یونین جماعتوں کی طرف سے چانسلر شپ کے لیے امیدوار ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے سی ڈی کی مجلس عاملہ کے آج علی الصبح تک جاری رہنے والے اجلاس میں مارکوس زوئڈر کو یونین جماعتوں کا چانسلرشپ کا امیدوار بنانے کی بہت کم حمایت دیکھنے میں آئی۔
مارکوس زوئڈر کو چانسلرشپ کا امیدوار بنانے کی سی ڈی یو کی مرکزی قیادت میں سے صرف نو ارکان نے حمایت کی۔ یہ شرح لاشیٹ کو ملنے والی 77.5 فیصد تائید کے مقابلے میں صرف 22.5 فیصد بنتی ہے۔
اشتہار
اکثریتی رائے کا احترام
آرمین لاشیٹ کی چانسلرشپ کے لیے امیدواری کی اس اکثریتی حمایت کا مطلب یہ نہیں کہ جرمن سیاست میں دونوں یونین جماعتوں پر مشتمل قدامت پسندوں کے بلاک نے لاشیٹ کو باقاعدہ طور پر اگلے عام انتخابات میں کامیابی کی صورت میں سرابرہ حکومت کے لیے اپنا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ یہ باقاعدہ عمل بعد میں مکمل کیا جائے گا۔
دنیا بھر کے اہم ممالک کے سربراہان حکومت اور ریاست کو ان کی خدمات کے عوض کتنی تنخواہ ملتی ہے؟ جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Warnecke
۱۔ لی شین لونگ
دنیا بھر میں سب سے زیادہ تنخواہ سنگاپور کے وزیر اعظم لی شین لونگ کی ہے۔ اس عہدے پر اپنی خدمات کے عوض وہ ہر ماہ ایک لاکھ سینتالیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر رقم وصول کرتے ہیں۔
تصویر: imago/ZUMA Press/UPI
۲۔ الائن بیرسیٹ
سوئٹزرلینڈ کی کنفیڈریشن کے صدر الائن بیریسٹ کی ماہانہ تنخواہ قریب چھتیس ہزار ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/D. Balibouse
۳۔ انگیلا میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی تنخواہ یورپی یونین میں سب سے زیادہ اور دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ بطور رکن پارلیمان اور ملکی چانسلر ان کی مجموعی ماہانہ تنخواہ 27793 یورو (چونتیس ہزار ڈالر سے زائد) بنتی ہے اور انہیں اس پر ٹیکس بھی ادا نہیں کرنا پڑتا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Schrader
۴۔ ملیکم ٹرن بُل
آسٹریلوی وزیر اعظم میلکم ٹرن بُل کی سالانہ تنخواہ پانچ لاکھ اٹھائیس ہزار آسٹریلوی ڈالر ہے جو کہ ساڑھے تینتیس ہزار امریکی ڈالر ماہانہ کے برابر ہے۔ یوں وہ اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters/R. Rycroft
۵۔ ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر کی سالانہ تنخواہ چار لاکھ ڈالر ہے جو ماہانہ 33 ہزار تین سو تینتیس ڈالر بنتی ہے۔ صدر ٹرمپ سب سے زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے سربراہان مملکت میں اگرچہ پانچویں نمبر پر ہیں لیکن انہوں نے تنخواہ نہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Getty Images/Pool/R. Sachs
۶۔ چارلس مشیل
’ویج انڈیکیٹر‘ کے مطابق بلیجیم کے وزیر اعظم چارلس مشیل اٹھائیس ہزار ڈالر کی ماہانہ تنخواہ کے ساتھ عالمی سطح پر چھٹے اور یورپ میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Lenoir
۷۔ سرجیو ماتریلا
اطالوی صدر سرجیو ماتریلا ساتویں نمبر پر ہیں اور اس عہدے پر خدمات کے عوض انہیں ماہانہ تئیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر تنخواہ ملتی ہے۔
تصویر: Reuters/Presidential Press Office
۸۔ جسٹن ٹروڈو
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو عالمی سطح پر زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے رہنماؤں کی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ قریب سوا بائیس ہزار امریکی ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/The Canadian Press/J. Tang
۹۔ کرسٹی کالیولائیڈ
یورپی ملک ایسٹونیا کی اڑتالیس سالہ صدر کرسٹی کالیولائیڈ کی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Charlier
۱۰۔ لارس لوکے راسموسن
ڈنمارک کے وزیر اعظم اس فہرست میں دسویں نمبر پر ہیں اور انہیں ماہانہ پونے بیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر تنخواہ ملتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Florin
۱۱۔ سٹیفان لووین
سویڈن کے وزیر اعظم سٹیفان لووین کی ماہانہ تنخواہ تقریبا ساڑھے انیس ہزار ڈالر بنتی ہے اور وہ اس فہرست میں گیارہویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/I.Hell
۱۲۔ جمی مورالیس
وسطی امریکی ملک گوئٹے مالا کے صدر جمی مورالیس کی ماہانہ تنخواہ بھی انیس ہزار تین سو امریکی ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/A. Sultan
۱۳۔ آذر الیے
’ویج انڈیکیٹر‘ کے مطابق آذربائیجان کے صدر آذر الیے کی ماہانہ تنخواہ بھی انیس ہزار ڈالر ہے۔
تصویر: Imago/Belga/F. Sierakowski
۱۴۔ ایمانوئل ماکروں
یورپی یونین کی دوسری مضبوط ترین معیشت فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں کی ماہانہ تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار ڈالر سے زائد ہے جو کہ جرمن چانسلر کی تنخواہ سے نمایاں طور پر کم ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Marin
۱۵۔ شینزو آبے
پندرہویں نمبر پر جاپانی وزیر اعظم شیزو آبے ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ سولہ ہزار سات سو ڈالر کے قریب بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Kambayashi
پاکستان سمیت دیگر اہم عالمی رہنما
اب تک آپ سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے پندرہ رہنما دیکھ چکے، آگے جانیے روس، ترکی، بھارت اور پاکستان جیسے ممالک کے رہنماؤں کی تنخواہوں کے بارے میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Warnecke
ٹریزا مے
برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کی ماہانہ تنخواہ ساڑھے سولہ ہزار ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J. Brady/PA Wire
رجب طیب ایردوآن
ترک صدر رجب طیب ایردوآن ہر ماہ تیرہ ہزار ڈالر بطور تنخواہ لیتے ہیں۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی تنخواہ کئی دیگر اہم رہنماؤں سے کم ہے۔ انہیں ہر ماہ ساڑھے بارہ ہزار ڈالر ملتے ہیں۔
تصویر: Reuters/Y. Kadobnov
عبدالفتاح السیسی
مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی ماہانہ تنخواہ پانچ ہزار آٹھ سو امریکی ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture -alliance/Sputnik/Vitaliy Belousov
نریندر مودی
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس فہرست میں کافی نیچے ہیں اور ان کی امریکی ڈالر میں ماہانہ تنخواہ قریب پچیس سو بنتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh
شی جن پنگ
دوسری مرتبہ چینی صدر منتخب ہونے والے شی جن پنگ ممکنہ طور پر’تا حیات‘ چینی صدر رہ سکتے ہیں۔ ’ویج انڈیکیٹر‘ کے مطابق ان کی تنخواہ محض ایک ہزار سات سو ڈالر کے برابر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Ng Han Guan
شاہد خاقان عباسی
پاکستانی وزیر اعظم کو ملنے والی ماہانہ تنخواہ دنیا عالمی سطح پر انتہائی کم ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق شاہد خاقان عباسی کو ماہانہ قریب ساڑھے بارہ سو امریکی ڈالر کے برابر تنخواہ دی جاتی ہے۔
تاہم آج کیے گئے سی ڈی یو کی ملکی قیادت کے فیصلے کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ سی ایس یو کے سربراہ اور باویریا کے وزیر اعلیٰ مارکوس زوئڈر کو اب چانسلرشپ کے لیے امیدواری سے متعلق سی ڈی یو کے مرکزی بورڈ کی اکثریتی رائے کا احترام کرنا ہی پڑے گا۔
'دو عہدوں پر ایک شخصیت‘ کی سیاسی روایت
چھ گھنٹے تک جاری رہنے والے آن لائن اجلاس میں اس فیصلے کی ضرورت اس لیے پڑی کہ سی ڈی یو اور سی ایس یو دونوں ہی جماعتوں کے سربراہان اپنی اپنی امیدواری پر مصر تھے اور اس بارے میں ان کے مابین اتوار کو ہونے والی ایک ملاقات میں بھی یہ طے نہیں ہو سکا تھا کہ اگلے عام الیکشن میں یونین جماعتوں کا چانسلرشپ کے لیے متفقہ امیدوار کس کو ہونا چاہیے۔
ساٹھ سالہ آرمین لاشیٹ کو اسی سال سی ڈی یو کا مرکزی سربراہ منتخب کیا گیا تھا اور وفاقی جرمن سیاسی روایت کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ ہی انتخابی کامیابی کی صورت میں حکومتی سربراہ کے عہدے کے لیے امیدوار ہوتا ہے۔
م م / ع ا (ڈی پی اے، روئٹرز)
جرمن چانسلر میرکل کی 60 ویں سالگرہ
ایک عام سی لڑکی سے پہلی جرمن چانسلر تک کا سفر۔ جمعرات کے روز جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی 60ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ ہم خواتین کے اختیارات میں اضافے کے پچھلے 60 برسوں پر نگاہ ڈالتے ہیں۔
تصویر: Reuters
روایات شکن رہنما
انگیلا میرکل نے جرمنی کے سیاسی منظرنامے کی کئی روایات توڑ ڈالیں۔ مشرقی جرمنی سے تعلق رکھنے والی خاتون، جنہیں ’سیاست کے داؤ پیچ‘ بھی معلوم نہیں تھے، قدامت پسند جماعت کی سربراہ مقرر ہوئیں اور تین مرتبہ چانسلر بھی منتخب ہو چکی ہیں۔ جرمن مصنفہ یولی سہ نے انگلیلا میرکل ہی کو ایک تھیٹر ڈرامے ’مُٹی‘ یا ’ماں‘ میں موضوع بنایا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دنیا کی سب سے بااختیار خاتون
کون جانتا تھا کہ انگیلا ڈوروتھیا کیزنر ایک دن دنیا کی سب سے طاقتور خاتون بن جائیں گی۔ ’مستقل مزاج‘، ’غیرجانبدار‘، ’خاکسار‘ اور ’غیرجذباتی‘ جیسے القابات ایک پروٹیسٹنٹ پادری کی اس بیٹی کو ملے، جو برانڈنبرگ کے علاقے ٹیمپلِن میں پلی بڑھی۔
تصویر: imago
ایک پولستانی گھرانہ
انگیلا کی دادی گیٹا اور دادا لُڈوِگ اپنے بیٹے ہورسٹ کے ہمراہ پوزن سے برلن منتقل ہوئے۔ سن 1930ء میں اس خاندان نے اپنے پولستانی نام Kazmierczak کو کیزنر میں تبدیل کیا۔ انگیلا میرکل کی پولستانی جڑوں کی بابت سن 2013ء میں معلومات سامنے آئی تھی، جس پر پولینڈ کے میڈیا پر خصوصی گفتگو بھی کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مشرقی جرمنی میں تعلیمی سفر
انگیلا میرکل نے برنڈنبرگ کے ایک اسکول جانا شروع کیا۔ سن 1973ء میں میرکل نے امتیازی نمبروں سے اپنی گریجویشن مکمل کی۔ انگیلا ریاضی اور روسی زبان پر عبور رکھتی ہیں۔ اپنے اسکول کے برسوں میں وہ سوشلسٹ یوتھ آرگنائزیشن FDJ میں سرگرم رہیں۔ وہ پہلی جرمن سربراہ حکومت ہیں، جن کا تعلق سابقہ مشرقی جرمنی سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
70 کی دہائی، راک اینڈ روک کے بجائے سائنس
میرکل نے جرمن شہر لائپزگ میں اپنی اعلیٰ تعلیم کی ابتدا طبعیات سے کی ۔ اس کے بعد وہ سابقہ مشرقی جرمنی کی اکیڈمی آف سائنس کے علمِ کیمیاء کے شعبے سے منسلک ہو گئیں۔ یہیں ان کی ملاقات اپنے پہلے شوہر اُلرش میرکل سے ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
میرکل کی سیاسی ابتدا
میرکل نے سیاست کا آغاز کیا اور پھر قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے منسلک ہو گئیں۔ یہیں وہ اپنے ’سیاسی استاد‘ اور پارٹی لیڈر ہیلمُٹ کوہل سے ملیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ جرمنی کی پارلیمان میں
سن 1990ء میں میرکل جرمن پارلیمان کی رکن منتخب ہوئی۔ سابقہ مشرقی جرمنی میں رہنے والی میرکل کی معلومات یورپی یونین کی بابت زیادہ نہیں تھیں، نہ ہی انہیں مغربی جرمنی کی سیاست کی گہرائیوں کیا زیادہ علم تھا، تاہم چانسلر ہیلمُٹ کوہل نے انہیں خواتین اور نوجوانوں کی وزارت کا قلمدان سونپ دیا۔ چار برس بعد وہ ماحولیات کی وزیر بنیں۔
تصویر: Reuters
خوبصورت قہقہے کی مالک
سیاست کا میدان، جس پر ہمیشہ سے مردوں کی گرفت رہی ہے، تاہم میرکل کسی جگہ کمزور دکھائی نہ دیں۔ جب یورپی یونین کو مالیاتی بحران کا سامنا تھا، تو میرکل جرمنی کے مفادات کے تحفظ کے لیے یورپی یونین میں ایک مضبوط آواز کی حامل دکھائی دیں۔ تاہم جرمنی میں ان کے ناقد ان پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ وہ کچھ معاملات پر واضح اور سخت الفاظ کا استعمال نہیں کرتیں۔
تصویر: Reuters
روسی سے تعلقات میں کشیدگی
مارچ میں یوکرائنی علاقے کریمیا پر روسی قبضے سے قبل میرکل اور پوٹن کے درمیان تعلقات ماضی کے مقابلے میں خاصے بہتر رہے۔ پوٹن میرکل کی انتہائی عزت کرتے ہیں۔ ایک طرف پوٹن جرمن اور دوسری طرف میرکل روسی زبان پر عبور رکھتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عام سا طرزِ زندگی
امریکا اپنے صدر کی شاندار رہائش گاہ وائٹ ہاؤس اور فرانسیسی ایلیزے پیرس کو جانتے ہیں، مگر برلن کے وسط میں میرکل اور ساؤر ایک اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں۔ وہ علاقے کے لوگوں سے عموماﹰ سپرمارکیٹ میں ملتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
میرکل کی سیاحت
میرکل اپنی چھٹیاں گزارنے اطالوی جزیرے اِشیا کا رخ کرتی ہیں، جہاں وہ اپنے شوہر کے ہمراہ سوئمنگ اور ہائکنگ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جرمنی کی کامیابی کا سفر
قومی ٹیم کے اہم میچز میں بھی اپنے کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھانے میرکل اسٹیڈیم کا رخ کرتی ہیں۔ برازیل میں ہونے والے حالیہ ورلڈ کپ مقابلوں میں جب جرمنی نے اپنا پہلا میچ کھیلا تو میرکل یہ میچ دیکھنے برازیل پہنچیں اور پھر فائنل کے موقع پر بھی میرکل اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ مقابلہ دیکھنے ریو ڈی جنیرو گئیں۔