آرمی ایکٹ بل کی حمایت: کیا سودے بازی کا نتیجہ ہے؟
7 جنوری 2020بہت سے افراد کی رائے میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے آرمی ایکٹ کی حمایت خود ان کی اپنی جماعتوں کے اصولی اور نظریاتی موقف سے رو گردانی ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے اب یہ تاثر زور پکڑتا جارہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں نے ہی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کی ہے، جس کی وجہ سے ان پارٹیوں کے کئی حلقوں میں بے چینی اور اضطراب ہے اور وہ پارٹی کی اعلٰی قیادت سے اس بات پر نالاں ہیں۔
مسلم لیگ کے کارکنان اس فیصلے پر سخت برہم ہیں جبکہ پارٹی کے اتحادیوں کا خیال ہے کہ ن لیگ پر شہباز گروپ کا قبضہ ہوگیا۔ معروف سیاست دان اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ، جو نواز شریف کے انتہائی قریب رہے ہیں، کا دعوٰی ہے کہ آرمی ایکٹ کی حمایت کا فیصلہ نواز شریف کی طرف سے نہیں آیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "مجھے پختہ یقین ہے کہ اس حمایت کا اعلان نواز شریف کی طرف سے نہیں آیا بلکہ یہ فیصلہ شہباز اور کمپنی کی طرف سے آیا ہے، جس سے سودے بازی کا تاثر پیدا ہورہا ہے۔ تاہم نواز شریف نے کوئی سودے بازی نہیں کی۔ نواز شریف نے دس برسوں تک سویلین حکومت اور پارلیمنٹ کی با لادستی کے لیے جدوجہد کی۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کی ساری جدوجہد اکارت ہو جائے گی۔ ن لیگ اور دیگر جن پارٹیوں نے اس بل کی حمایت کی ہے، انہیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔"
ان کا کہنا تھا کہ اگر ن لیگ اور پی پی پی مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں شرکت کر لیتی تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔ "سیاست دانوں نے مصلحت پسندی اختیار کر کے غیر جمہوری لوگوں کے حوصلے بڑھائے ہیں اور آج ایک بریگیڈیئر اعلی اعلان اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے فلاں فلاں حکومت بنائی ہے اور سیاسی جماعتیں اس حلف سے انحراف کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جن لوگوں نے سیاست دانوں کا ہمیشہ راستہ روکا، مصنوعی قیادتیں پیدا کرنے کی کوشش کی اور عوام پر ان قیادتوں کومسلط کیا، ان کا محاسبہ ہونا چاہیے اور ایک نئے جذبے کے ساتھ سویلین برتری کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے۔"
تاہم ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایسے کسی بھی ارادے کو اپنے پاس بھٹکنے نہیں دے رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ طاقت ور حلقوں کے خلاف جانے سے گریزاں ہیں جب کہ ان کے کارکن ان حلقوں کے خلاف ہیں کیونکہ وہ انہیں غیر جمہوری سمجھتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنان سجھتے ہیں کہ ان حلقوں کی حمایت کرکے سیاسی جماعتوں نے سودی بازی کر لی ہے اور یہ کہ جماعتیں اپنی کارکنوں کو اس بات پر قائل کرنے میں نا کام ہوگئی ہیں کہ انہوں نے سودے بازی نہیں کی۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، "دو دن پہلے نفیسہ شاہ سمیت کچھ رہنماؤں نے اس مسئلے کو چیرمین بلاول کے سامنے اٹھایا لیکن وہ کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے اور اب لوگوں میں تاثر پھیل رہا ہے کہ زرداری صاحب، خورشید شاہ، آغا سراج درانی اورادی فریال کو جو رعایتیں ملی ہیں وہ سب ڈیل اور سودے بازی کا نتیجہ ہے۔"
پارٹی کے کئی رہنما اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ تاہم وہ کھل کر اس پر بول نہیں سکتے۔ پیپلز پارٹی سینٹرل سیکریٹیرِئیٹ اسلام آباد میں میڈیا کورڈینیٹر کے طور پر کام کرنے والے الطاف بشارت اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ تاثر تیزی سے جڑ پکڑ رہا ہے۔ "میرے خیال میں پارٹی کو اس فیصلے سے بہت نقصان ہوگا۔ ہم اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاسی جماعت سمجھے جاتے تھے، اب ہمیں لوگ جی ایچ کیو کا دم چھلا کہہ رہے ہیں۔ کئی کارکنان کہتے ہیں کہ وہ عوام کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے۔ پارٹی میں کئی سطحوں پر اس حمایت کی وجہ سے بے چینی ہے اور شاید مستقبل میں اس بے چینی کا کسی نہ کسی شکل میں اظہار بھی ہو۔"
ن لیگ کے کارکنان بھی اس حمایت پر چراغ پا ہیں اور اسے سودے بازی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے ایک مقامی رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، "آج ووٹ کو عزت دینے اور سول بالادستی کے تحریک میں شامل ہر کارکن کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ آج ووٹ کی جگہ بوٹ کو عزت دی گئی ہے۔ یہ دن مارشل لاء لگنے سے بھی برا ہے کیونکہ مارشل میں تو آئین، پارلیمںٹ اور جمہوریت کو طاقت کے بل بوتے پر بے توقیر کیا جاتا ہے لیکن آج خود سیاسی جماعتوں نے سودے بازی کی اور خود پارلیمنٹ اور آئین کی بے توقیری کی۔ مسلم لیگ کا کارکن بہت مایوس ہے لیکن وہ پارٹی کے اندر اس فیصلے کے خلاف لڑے گا۔"
تاہم نون لیگ کے رہنما اور سابق گورنر خیبر پختونخواہ اقبال ظفر جھگڑا اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں کہ نواز شریف نے کوئی سودے بازی کی ہے۔ "ہم نے اور ساری سیاسی جماعتوں نے وسیع قومی مفادات کے لیے اس بل کی حمایت کی ہے۔ نواز شریف آج بھی ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسی نعرے کے ساتھ عوام میں جائیں گے۔ ان کے لندن جانے سے اس حمایت کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ خالصتاً طبی بنیادوں پر لندن گئے ہیں اور انہوں نے کوئی سودے بازی نہیں کی ہے۔"
ان کا دعوٰی تھا کہ ان کی پارٹی نہ ہی جی ایچ کیو کے سامنے جھکی ہے اور نہ ہی سویلین برتری پر کوئی سمجھوتہ کیا ہے۔
تاہم اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست دان نون لیگ کے اس دعوٰی کو ماننے سے انکاری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "نہ صرف ن لیگ نے بلکہ ساری سیاسی جماعتوں نے سودے بازی کر لی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رہنما اور ایم این اے بشرٰی گوہر کے خیال میں سیاسی جماعتوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ صرف ربر اسٹیمپ ہیں اور انہوں نے آج جمہوریت کی موت پر مہر ثبت کر دی ہے۔ " سیاسی جماعتوں نے غیر اعلانیہ مارشل لاء کو قانونی شکل دے دی ہے، جو ہمیں دوہزار اٹھارہ کے جنرل سیلیکشن میں نظر آیا۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے نہ صرف اصولی اور نظریاتی موقف سے غداری کی بلکہ عوامی جذبات کو بھی نظر انداز کیا۔ انہوں نے ایک شخص کے گرد گھومتے بل کی حمایت کر کے اپنے کارکنوں کو رسوا کر دیا ہے۔" ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں نے آج ثابت کر دیا ہے کہ جب ان پر دباو آئے گا تو وہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے پنڈی کی لائن کو ٹو کریں گی۔