16 دسمبر 2014 ء کے دن دہشت گردوں نے پشاور میں قائم آرمی پبلک سکول میں داخل ہو کر اساتذہ سمیت 150 کے قریب طلباء کو قتل کیا۔ آج اس واقعے کی پانچویں برسی منائی جارہی ہے۔ حکومت نے اس واقعے کی رپورٹ ابھی تک جاری نہیں کی ہے۔
اشتہار
آج آرمی پبلک اسکول پر حملے کی پانچویں برسی کے موقع پر پشاور کے اہم شاہراہوں پر جاں بحق ہونے والے طلباء کی تصاویر آویزاں کی گئیں ہیں جبکہ متعدد سرکاری ہائی اور ہائر سکینڈری اسکولوں میں اس حوالے سے تقاریب منعقد کی جا رہی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے متعدد اسکولوں کے نام جان بحق ہونے والے بچوں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں۔
49 سالہ فلک ناز ایک نرس ہیں۔ 16 دسمبر 2014 ء کو آرمی پبلک سکول پشاور پر ہونے والے حملے میں اس کے دو بیٹے نور اللہ درانی اور سیف اللہ درانی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ فلک ناز کی تین بیٹیاں ابھی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ پشتون معاشرہ میں وراثت کے لیے بیٹے کا ہونا بہت ضروری اور اہم سمجھا جاتا ہے لیکن فلک ناز کہتی ہیں کہ انہوں نے اب اپنی تمام توجہ اپنی بیٹیوں کی تعلیم پر مرکوز رکھی ہے،''اس واقعے کے بعد میرے شوہر گہرے صدمے سے نہیں نکل سکے ہیں اور اب وہ بس گھر پر ہی رہتے ہیں۔ ماں کا دکھ زیادہ ہوتا ہے لیکن میں نے ماں کے ساتھ جڑی پرانی باتوں کی بجائے اپنی توجہ اپنی بیٹیوں اور گھر کا ماحول اچھا رکھنے پر مرکوز کی ہوئی ہے۔‘‘
فلک ناز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''شبقدر میں میرے بیٹے نوراللہ درانی کے نام پر پرائمری اسکول کے لیے میرے بھائی نے چار کنال زمین دی تاکہ اسے ہائی یا ہائر سیکنڈری میں تبدیل کیا جائے۔ اس طرح میرے آبائی علاقے کے بچوں کو کم از کم ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کرنے میں دشواری نہیں ہو گی لیکن اسکول پر صرف ایک سنگ مرمر کی تختی کے سوا کوئی کام نہیں کیا گیا۔‘‘
پشاور صدر کے ہائر سیکنڈر اسکول نمبر 1 کا شمار صوبے کے بہترین اسکولوں میں ہوتا ہے۔ یہ اسکول 1930ء میں سکھوں نے بنایا تھا۔ آرمی پبلک سکول کے واقعے کے بعد اس اسکول کا نام مبین آفریدی کے نام پر رکھا گیا۔ حسنین نقوی اس اسکول کے پرنسلز میں سے ایک تھے۔ انہی کی خدمات کی وجہ سے اس اسکول کو صدارتی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ مشہور ڈرامہ اور فلم اداکار محمد قوی خان بھی اسی اسکول سے فارغ ہوئے ہیں۔
اقتدار علی خان اس اسکول میں وائس پرنسپل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ملک میں واحد اسکول ہے، جس کے پرنسپل اور طالب علم کو صدارتی ایوارڈ دیے گئے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،''اعلیٰ افسروں نے اسکولوں کے نام رکھنے کے لیے اسکول میں پڑھانے یا پڑھنے والوں سے کوئی مشورہ نہیں کیا تھا۔ مجھے باقی اسکولوں کے نام رکھنے پر اعتراض نہیں لیکن اس اسکول کا نام پرنسپل حسنین نقوی کے نام پر رکھنا چاہیے۔ اس سکول سے ڈاکٹر، انجینیئرز، آرمی آفیسرز، پائلٹس اور اچھے سیاسی ورکرز اور قائدین نکلے ہیں، اس لیے میرے خیال میں حسنین نقوی صاحب زیادہ مستحق تھے، مبین آفریدی سے بھی زیادہ۔"
زاکر حسین آفریدی قبائلی علاقے جمرود کے رہائشی ہیں۔ جمرود ہائر سکینڈری اسکول ضلع خیبر کا نام بھی تبدیل کیا گیا ہے۔ زاکر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "فیڈرل گورنمنٹ سکول یا ایف جی اسکول خیبر پختونخواہ میں زیادہ تر کینٹ علاقوں میں واقعہ ہیں اور ان میں سے کسی بھی اسکول کا نام ان شہید بچوں کے نام پر نہیں رکھا گیا تو گورنمنٹ اسکولوں کے نام کیوں رکھے ہیں۔‘‘
پشاور میں قائم ایجوکیشن آفس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام نہ بتانے کے شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ہمارے بچے جو گورنمنٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں ان کی ریفریشمنٹ اور ذہنی نشونما بڑھانے کے لیے بہت ہی کم کام ہوا ہے۔ ان شہید بچوں کے والدین کو خوش کرنے کے لیے اسکولوں کے نام تبدیل کرنا اچھا اقدام ہو سکتا ہے لیکن یہ بہتر کام نہیں۔ کاش حکومت ان بچوں کے نام پر نئے اسکول اور کالجز بناتی۔‘‘
سانحہء اے پی ایس پشاور: یاد آج بھی تازہ
سولہ دسمبر سن دو ہزار چودہ کا سورج غروب ہوا تو پاکستان بھر کو سوگوار اور آبدیدہ چھوڑ گیا۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان کے ہاتھوں بچوں کے قتلِ عام کی گزشتہ تین سالوں میں مذمت عالمی سطح پر کی گئی۔
تصویر: DW/F. Khan
اسکول کی دیوار، بربریت کی گواہ
طالبان کی بندوقوں سے نکلی گولیوں نے اسکول کی دیواروں کو بھی چھلنی کر دیا۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
امدادی کارروائیاں
اسکول میں حملے کی اطلاع ملتے ہی پاکستان کی فوج نے بچوں کو محفوظ مقام پر پہنچانے کی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/K. Parvez
اپنے پیاروں کی میت اٹھانا مشکل
ایک شخص امدادی کارکن کے ساتھ بیٹے کا تابوت اٹھاتے ہوئے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔
تصویر: Reuters/K. Parvez
آنسو بھی حوصلہ بھی
آرمی پبلک اسکول حملے میں زخمی ہونے والے ایک طالبِ علم کے رشتہ دار ایک دوسرے کو تسلی دیتے رہے۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
خود محفوظ لیکن ساتھیوں کا غم
ایک طالب علم جسے حفاظت سے باہر نکال لیا گیا تھا، اندر رہ جانے والے اپنے ساتھیوں کے لیے اشکبار تھا۔
تصویر: Reuters/K. Parvez
علی محمد خان اب نہیں آئے گا
سانحہ پشاور میں طالبان کی گولیوں کا نشانہ بننے والے علی خان کی والدہ کو قرار کیسے آئے۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
سیاہ پٹی اور سرخ گلاب
پاکستان بھر میں بچوں نے گزشتہ برس بازوؤں پر سیاہ پٹی اور ہاتھ میں سرخ گلاب تھام کر طالبان کی بربریت کا شکار ہونے والے اپنے ساتھیوں کی یاد منائی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
دنیا بھر میں احتجاج
نیپال کے دارالحکومت کھٹمندو کی ایک خاتون نے اپنے انداز میں پشاور حملے پر احتجاج کیا۔
تصویر: Reuters/Navesh Chitrakar
بھارتی بچے بھی سوگ میں شامل
بھارت کے شہر متھرا میں اسکول کے بچوں نے سانحہ پشاور میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لیے دعا کی۔
تصویر: Reuters/K. K. Arora
روشن قندیلیں
پاکستان میں سول سوسائٹی اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد آج کے دن ہر سال سانحہ پشاور میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں شمیں روشن کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/R. S. Hussain
10 تصاویر1 | 10
ڈاکٹر اعزاز مردان میڈیکل کمپلیکس میں شعبہ نفسیات کے سینيئر رجسٹرار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی سے زیادہ تر اسی صوبے کے افراد متاثر ہوئے ہیں اور ذہنی طور پر تقریباً ہر خاندان کے افراد متاثر ہوئے ہیں۔ صوبے کے لوگوں کو خوشیوں کی زیادہ ضرورت ہے۔
سول سوسائٹی کے اراکین نے پشاور میں آج ایک ریلی نکالی، جس میں یہ نعرہ لگائے جا رہے تھے "یہ جو طالبان ہے، یہ کس کے مہمان ہیں۔" ریلی کے شرکاء کا اشارہ طالبان کے ترجماناحسان اللہ احسان کی طرف تھا، جس نے آرمی پبلک اسکول کے واقعے کے بعد اس کی ذمہ داری قبول کی تھا۔ احسان اللہ احسان کو پاکستانی سکیورٹی اداروں نے گرفتار کیا ہے لیکن اسے ابھی تک سزا نہیں ملی ہے۔
اس ریلی کے قریب کھڑے 27 سالہ کامران نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''میرے دل میں طالبان کا خوف بہت زیادہ تھا اور میں ان کے خلاف کھل کر بات نہیں کر سکتا تھا لیکن آرمی پبلک سکول میں ان کی بربریت نے وہ خوف ختم کر دیا اور مجھے طالبان سے نفرت ہوئی، اب اس کا کھل کر اظہار کرنے میں بھی کوئی خوف نہیں۔‘‘
کامران نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "آرمی پبلک اسکول کے واقعے کو بہت زیادہ کوریج مل رہی ہے لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس کا دوسرے طلباء پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ ہم نے پوسٹ ٹرامیٹیک ڈس آرڈر کے موضوع پر ہونے والے کئی سیشنر میں شرکت کی ہے۔ آرمی پبلک اسکول کے قریب واقع دیگر سکولوں کے طلباء میں اس طرح کے حملوں کا خوف بدستور موجود ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سکولوں پر بھی اسی طرح حملے ہو سکتے ہیں، جس سے ان کی پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے اور خاص کر ان دنوں میں، جب ذرائع ابلاغ اسی پر ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہوں۔‘‘
پشاور اسکول حملہ: والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ
آرمی پبلک سکول پر حملے کو تقریباﹰ ایک برس مکمل ہو گیا ہے۔ لیکن متاثرہ بچوں کے والدین کے ذہنوں میں ابھی تک درجنوں ایسے سوالات گردش کر رہے ہیں، جن کا حکومت اور سکیورٹی اداروں سمیت کوئی بھی جواب دینے کے لیے تیار نہیں۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
پشاور میں پیش آنے والا سانحہ سینکڑوں والدین کے لیے زندگی بھر کا صدمہ اور روگ بن چُکا ہے۔ ایک برس پہلے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے میں 148 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔ والدین کے خواب ایسے چکنا چور ہوں گے، کبھی کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
والدین کے مطابق حملہ آوروں کے بارے میں حکومتی موقف میں بھی تضاد ہے اور آج تک سکول کی سکیورٹی کے ذمہ داروں کا تعین بھی نہیں ہو سکا، ’’اس واقعے سے چند ماہ قبل سکیورٹی میں کمی کیوں کی گئی؟ سکول کی سکیورٹی کے ذمہ داروں سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی اور والدین کو ان تمام سوالات کے جواب چاہیں۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images/A. Majeed
ایک سال گزرنے کے بعد بھی یہ بچے اور ان کے والدین کے دکھوں میں کمی نہیں آئی۔ سائکاٹرسٹ ڈاکٹر عرفان اللہ خان کے مطابق پچاس فیصد بچے ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکے جبکہ والدین میں ان بچوں کی زیادہ تر مائیں اب بھی خواب آور ادویات کا استعمال کرتی ہیں۔
تصویر: Faridullah Khan
مبین شاہ کی والدہ سے بات کی جن کا کہنا تھا، ’’مبین شاہ آفرید ی میرا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس نیت سے آرمی پبلک سکول میں داخل کروایا کہ حساس علاقے میں موجود فوج کی نگرانی میں میرا بیٹا بھی محفوظ رہے گا لیکن دہشت گرد وہاں بھی پہنچ گئے اور میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لیا۔ اب بھی عقل تسلیم نہیں کرتی کہ اس قدر محفوظ علاقے میں چند لوگ کیسے داخل ہوئے اور کس طرح قتل عام کیا؟ ‘‘
تصویر: DW/F. Khan
شہزاد اعجاز کے والد میاں اعجاز احمد کا کہنا تھا، ’’خود اپنے جواں سال بچے کو نہلایا تھا، اس کے جسم میں گیارہ گولیاں لگی تھیں، یہ کس طرح بھول سکتا ہوں۔ یہ غم ہم قبر تک لے کر جائیں گے۔ میرا بیٹا گیارہ گولیاں کھا کے کس طرح مرا ہوگا؟ مجھے اس کا گناہ بتایا جائے۔‘‘
تصویر: DW/F. Khan
حکومت کی طرف سے زخمی بچوں کے لیے علاج کی سہولیات تو فراہم کی گئیں لیکن حملے کے ذمہ دار آج بھی حکومتی گرفت میں نہیں آ سکے اور یہ بات والدین کے لیے بھی تکلیف دہ ہے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران حکومت نے ہلاک اور زخمی ہونے والے بچوں کے والدین کو مالی امداد کے ساتھ ساتھ علاج کی سہولیات بھی فراہم کیں لیکن زیادہ تر والدین ان اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
’آرمی پبلک سکول شہدا فورم‘ کے صدر عابد رضا بنگش کا کہنا تھا، ’’اکتوبر میں انتظامیہ کو اس طرح کے واقعے کی اطلاع دی گئی لیکن پھر بھی سکیورٹی بہتر نہ ہوسکی۔ خو د پولیس کے سربراہ نے تسلیم کیا ہے کہ واقعہ پولیس کی غفلت کا نتیجہ تھا لیکن کسی کو سزا نہیں ہوسکی۔ اگر سولہ دسمبر تک حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے تو شہدا پیکج سمیت تمغے اور ایوارڈ بھی واپس کریں گے۔‘‘
تصویر: DW/F. Khan
والدین کا مطالبہ ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بناکر اس کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلا ف کارروائی کی جائے۔ متاثرہ والدین کے مطابق نہ تو حکومت اس واقعے میں ملوث دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا سکی اور نہ ہی بچوں کو قومی اعزاز دیے گئے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A Majeed
حکومتی اداروں کی ’سرد مہری‘ نے والدین کو مایوس کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کئی والدین نے اس دوران ’اے پی ایس کے شہدا‘ کے نام سے ہونے والی تمام سرکاری تقریبات سے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
اس واقعے میں زخمی ہونے والے بچوں اور چشم دید گواہ ابھی تک اس بھیانک خواب سے نہیں نکل سکے۔ واقعے کے چشم دید گواہ طالب علم ذکریا اعجاز نے اپنے تاثرات کچھ اس طرح بیان کئے، ’’میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکوں گا۔ اس دن کالج میں سیکنڈ ایئر کا پرچہ تھا۔ زیادہ تر طلبا آڈیٹوریم میں تھے اور جب میں اپنے والد سے ملا اور پتہ چلا کہ میرا بھائی بھی اس میں شہید ہوا ہے تو پھر مجھے ہوش نہیں رہا۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images/A Majeed
ڈاکٹروں کے مطابق پشاور اسکول حملے میں زخمی ہونے والے بچے ابھی تک شدید خوف کا شکار ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق مسلسل ان بچوں کا علاج کیا جائے تاکہ انہیں اس صدمے سے باہر نکالا جاسکے۔