1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہم نے ان کے قلم، کتابیں اور اسکول بیگز سنبھال کر رکھے ہیں‘

16 دسمبر 2021

پشاور کے اسکول میں مارے جانے والے بچوں کے والدین نے حکومت پر ہمدردی سے محروم ہونے کا الزام لگایا ہے۔ آرمی پبلک اسکول پر حملہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے خونی دہشت گردانہ حملہ تھا جس میں 132 بچے موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔

 Army Public School Student Memorial Seminar in Peshawar
تصویر: Faridullah Khan/DW

سن 2020 میں پاکستانی پارلیمنٹیرین مسرت جمشید چیمہ، ڈاکٹر بدر منیر اور سول سوسائٹی کے کارکن اُس شبینہ دعا میں شریک ہوئے تھے، جس میں حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی یاد میں شمعیں بھی روشن کی گئیں تھیں۔ ان شہید ہونے والے بچوں کا تعلق پشاور کے آرمی پبلک اسکول سے تھا اور حملہ سولہ دسمبر سن 2014 میں کیا گیا تھا۔ حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کا تعلق تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

آرمی پبلک اسکول سانحہ: سکیورٹی کی ناکامی

ان غم زدہ افراد میں ایک شاہانہ عجون بھی ہیں، جن کے لیے دسمبر کا مہینہ رنج و غم اور شدید پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔ ان کا خاندان سات برس قبل کیے گئے دہشت گردانہ حملے کی شدت کو پھر محسوس کرتا ہے اور وہ ابھی بھی اس کوشش میں ہیں کہ غم کی اس شدت کو مناسب انداز میں سہار سکیں۔

آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہلاک ہونے والے بچوں کی یاد میں شمعیں بھی روشن کی جاتی ہیںتصویر: Rana Sajid Hussain/Pacific Press/picture alliance

ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا انجام

گزشتہ ماہ عمران خان حکومت نے عسکریت پسند گروپ ٹی ٹی پی کے ساتھ ایک ماہ کی جنگ بندی کا معاہدہ طے کیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ پچھلے پندرہ برسوں میں اسی مسلح گروپ نے پاکستان میں کئی دہشت گردانہ حملوں میں بے شمار باوردی اہلکاروں اور عام شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔

’طالبان سے جنگ بندی کا معاہدہ زخموں پر نمک پاشی ہے‘

اس عسکریت پسند گروپ نے ایک ماہ کی جنگ بندی میں مزید توسیع کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ حکومت نے معاہدے کی شرائط کا احترام نہیں کیا اور ان کے گرفتار ایک سو دو افراد کو رہائی نہیں دی ہے۔

ٹی ٹی پی کے اس بیان پر حکومت کی جانب سے ڈی ڈبلیو کی ارسال کردہ درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

حملوں کا دوبارہ آغاز

ایک ماہ کی جنگ بندی کے معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔ عسکریت پسندوں نے اُن پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا جو پولیو ویکسین فراہم کرنے والی ٹیم کی حفاظت پر مامور تھے۔ یہ حملہ خیبر پختونخوا کے شمال مغربی ضلع ٹانک میں کیا گیا اور اس میں ایک پولیس اہلکار مارا گیا جب کہ دوسرا زخمی ہوا تھا۔

 ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن کا مطالبہ: کیا ایکشن ممکن ہے؟

ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا بیان بھی دیا۔

اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک سے وابستہ ریسرچر سمن رضوان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی سے بات چیت نے انسداد دہشت گردی کے سارے بیانیے کو تبدیل کر دیا ہے اور ویسے بھی اس مسلح گروپ کے ساتھ یہ مذاکراتی عمل طویل مدتی نہیں ہو سکتا۔

آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردانہ حملے میں شہید ہونے والے بچوں کے لیے منعقد کی جانے والی قران خوانیتصویر: Faridullah Khan/DW

سولہ دسمبر، ایسا پہلے کبھی کوئی دن نہ تھا

آرمی پبلک اسکول میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ ہر سال جب یہ دن آتا ہے تو ان کے دکھوں کے زخم پھر سے ہرے ہو جاتے ہیں۔ شاہانہ عجون کا کہنا ہے کہ سات سال قبل سولہ دسمبر کو منگل تھا اور وہ اس منگل کو کبھی بھی بھول نہیں سکتی، جب تین گھنٹوں تک اسکول میں خوف اور خون کا بھیانک سلسلہ جاری رہا۔ آٹھویں جماعت میں پڑھتا ان کا بیٹا اسفند خان اس حملے میں موت کی گہری وادی میں چلا گیا تھا۔ شہید اسفند خان کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کی ہمت دم توڑ گئی تھی جب انہیں معلوم ہوا کہ  ان کے بیٹے کو انتہائی قریب سے سر پر گولیاں ماری گئی تھیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یوں تو سات سال بیت چکے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ابھی ایک روز قبل ہوا ہے۔

ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجو افغان سرحد پر موجود، اقوام متحدہ

آرمی پبلک اسکول میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین اور رشتہ دار ان بچوں کی ناگہانی موت پر آج بھی شدید غم زدہ ہیں۔ وہ آج بھی ان کی یونیفارمز، پین، کتابیں اور اسکول بیگز سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ انہیں دکھ بھری یادیں قرار دیتے ہیں۔

ہارون جنجوعہ (ع ح/ ع آ)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں