آرٹ اور فحاشی کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچنے کی ضرورت ہے
27 فروری 2016 بھارتی عدالت عظمٰی نے بچوں میں پورن یا فحش ویب سائٹوں کی بڑھتی ہوئی لت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تقریر و اظہار رائے کی آزادی کے نام پر بچوں کے مستقبل کو تبا ہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ عدالت نے حکومت کو اس پر قابو پانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ وہ کسی بھی شکل میں موجود چائلڈ پورنوگرافی کی لعنت کو ختم کرنے کے تمام ممکنہ طریقوں سے عدالت کو آگاہ کرے۔
سپریم کورٹ نے مفاد عامہ کی ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ آرٹ اور فحاشی کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچنے کی ضرورت ہے۔ تقریر اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر چائلڈ پورنوگرافی کی قطعی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ’’آپ کو ایک لکیر توکھینچنا ہی ہو گی کیونکہ کن چیزوں کو عوامی طورپر دیکھنے کی اجازت ہونی چاہئے اور کون سی چیزیں صرف تنہائی میں دیکھی جائیں۔‘‘ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا کہ عوامی مقامات پر فحش مواد دیکھنے اور دوسروں کو دیکھنے کے لیے مجبور کرنے والوں کے خلاف سخت قدم اٹھائے جانے چاہئیں۔ عدالت عظمی نے کہا کہ بھارتی آئین کی دفعہ 19(1) اے میں اظہار رائے کی جو آزادی دی گئی ہے وہ’’مطلق‘‘ نہیں ہے اور منطقی بنیادوں پر اس پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔
بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی قانون کے تحت ’’فحش مواد‘‘ کی تیاری اور نشر واشاعت قابل سزا جرم ہے اور قصوروار کو تین سال تک کی سزا دی جاسکتی ہے۔ چند ماہ قبل بھی سپریم کورٹ میں یہ معاملہ پیش ہوا تھا۔ اس وقت عدالت نے حکومت سے پوچھا تھا کہ اگر دوسرے ملک ایسی ویب سائٹس پر پابندی عائد کر سکتے ہیں تو بھارت میں کیوں نہیں؟ عدالت نے کہا تھا کہ ایسی ویب سائٹس پر کنٹرول کی ضرورت ہے اور حکومت بالخصوص چائلڈ پورنوگرافی والی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کے لیے تیزی سے کام کرے۔ تاہم اس وقت مرکزی حکومت نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ فحش ویب سائٹوں پر پابندی لگانا اس لیے بھی بہت مشکل ہے کیوں کہ ان کے سرور دوسرے ملکوں میں ہونے کی وجہ سے ان پر کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔
عدالت عظمٰی سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ حکومت اور دیگر ایجنسیوں کو پورن یا فحش ویب سائٹس، پلیٹ فارموں، لنکس اور ڈاؤن لوڈنگ کی سہولیات کو بلاک کرنے کا حکم دے۔ درخواست گزار نے مزید کہا تھا کہ پورنوگرافی موادکی تقسیم اور ان تک رسائی کو روکنے کے لیے بھی سخت ہدایات دی جائیں نیز حکومت انٹر نیٹ پر چائلڈ پورنوگرافی کو بلاک کرنے اور اسے ختم کرنے کے لیے موثر قدم اٹھائے۔
گزشتہ برس اگست میں ٹیلی کمیونیکیشن کی وفاقی وزارت نے انٹرنیٹ مہیا کرنے والی اداروں کو پورن کانٹینٹ والے 857 ویب سائٹس کی ایک فہرست سونپی تھی اور تمام پورن ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔ لیکن حکومت کے اس فیصلے پر کافی ہنگامہ ہوا جس کے بعد وزارت نے یہ حکم واپس لیتے ہوئے صرف چائلڈ پورنوگرافی والی ویب سائٹس تک ہی اسے محدود کردیا تھا۔ تاہم اس ہدایت پر بھی عمل نہیں ہوپارہا ہے۔
عدالت عظمٰی نے بالغوں اور بچوں کی پورنوگرافی والی ویب سائٹوں پر پابندی لگانے کے سلسلے میں حکومت کو ماہرین سے مشورے لینے کی بھی ہدایت دی۔
دریں اثناء یہاں ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کے لیے فحش ویب سائٹوں کو بلاک کرنا مشکل نہیں تو دشوار ضرور ہے۔ کمپیوٹر کے ایک ادارہ سے وابستہ سوروپ سمپتھ کا کہنا ہے کہ ’’چائلڈ پورنوگرافی پر پابندی لگانے کی حکومت کی خواہش بہت اچھی ہے لیکن یہ تکنیکی طور پر مشکل ہے۔ البتہ حکومت کو اس سلسلے میں چین اور امریکا جیسے ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔‘‘ سمپتھ کا تاہم کہنا ہے کہ حکومت کے پاس غالباً یہ اعداد و شمار بھی نہیں ہے کہ کتنی ویب سائٹ فحش مواد شائع کر رہے ہیں اور کن کن زبانوں میں شائع ہو رہے ہیں۔ سمپتھ سوال کرتے ہیں کہ اگر آپ کو مرض کی علامت ہی معلوم نہیں تو علاج کیسے کریں گے؟ حکومت کو پہلے ایسی ویب سائٹوں کی شناخت کرنی ہو گی اور پھر انٹر نیٹ سروس پرووائیڈرس اور سیکورٹی ماہرین کی مدد سے انہیں بلاک کرنا ہو گا۔
سیلولر آپریٹرس ایسوسی ایشن آف انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل راجن ایس میتھیوز بھی اس خیال کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر حکومت چاہے توفحش ویب سائٹس کو بلاک کیا جاسکتا ہے۔ میتھیوز کا کہنا ہے کہ چونکہ بھارت میں انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرس محکمہ ٹیلی کوم کی ہدایات کے پابند ہیں اور انہیں محکمہ کے تمام ضابطوں پر عمل درآمد کے لیے رضامندی ظاہر کرنے کے بعد ہی لائسنس دیے جاتے ہیں اس لیے اگران پر پورن ویب سائٹوں کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے اور حکومت کوئی واضح نوٹیفیکیشن جاری کرے تو انہیں اسے ماننا ہی پڑے گا۔