آرکاڈی بابچینکو: ایک ایسا مردہ صحافی جو زندہ ہو گیا
31 مئی 2018
ماسکو حکومت کے شدید ناقد آرکاڈی بابچینکو ایک ایسا شخص ہے، جو مردہ قرار دیا گیا لیکن زندہ لوٹ آیا۔ دوسری جانب بابچینکو ایک ایسا ’مقتول‘ صحافی ہے جن کے قتل کی تفتیش جاری ہے۔
اشتہار
یہ واقعی حیران کن ہے کہ آرکاڈی بابچینکو ایک ایسا شخص ہے، جس کے ’قتل‘ کے بعد درجنوں یادگاری کالم لکھنے کے علاوہ مختلف حکومتی حلقوں کے بیانات سامنے آئے۔ پھر بدھ تیس مئی کو ’مقتول‘ آرکاڈی بابچینکو اپنے ملک یوکرائن کی خفیہ سروس کے سربراہ اور پراسیکیوٹر جنرل کے ہمراہ اپنے ملک میں نمودار ہو گئے۔
یوکرائن کے خفیہ ادارے کے سربراہ واسیل گرٹساک نے کییف میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ اکتالیس برس کے مردہ قرار دیے گئے صحافی سے بالمشافہ گفتگو کر سکتے ہیں۔ صحافیوں کے ہجوم کے سامنے آ کر آرکاڈی بابچینکو نے اپنے زندہ ہونے کا اعلان کیا۔ آرکاڈی نے اپنی جان بچانے کے حوالے سے یوکرائنی خفیہ ادارے کے سربراہ کا شکریہ ادا کیا اور اپنی بیوی سے معذرت کی کہ وہ اُن کی موت کی خبر کے بعد شدید پریشانی سے دوچار رہی۔
پریس کانفرنس میں یوکرائنی خفیہ سروس کے سربراہ واسیل گرٹساک نے بتایا کہ اس معاملے میں فرضی کردار کی ضرورت پیش آئی تا کہ اُن افراد کو سامنے لایا جا سکے کہ ماسکو حکومت کس طرح اپنے ناقدین کو خاموش کرنے کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔
گرٹساک کے مطابق جس شخص کو بابچینکو کو گولی مارنے کا فریضہ سونپا گیا، وہ یوکرائنی خفیہ سروس کے لیے خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ پریس کانفرنس میں ایک شخص کو حراست میں لینے کی فوٹیج بھی دکھائی گئی، جس کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ یوکرائن میں مقیم تیس روسیوں کو قتل کرے۔
اس پریس کانفرنس میں یوکرائن کے پراسیکیوٹر جنرل یوری لُٹسینکو نے اُن سیاسی شخصیات کے بیانات پڑھے جنہوں نے کییف حکومت پر تنقید کی تھی کہ وہ بابچینکو جیسے صحافیوں کو بچانے میں ناکام رہی ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل نے واضح کیا ایسے تمام سیاسی مخالفین کو غلط ثابت کر دیا گیا اورحکومت بابچینکو کی زندگی محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ یوکرائنی صدر پیٹرو پوروشینکو نے بابچینکو کے زندہ بچانے کی خبر کو شاندار قرار دیا۔
یہ بھی حیران کن ہے کہ مردہ قرار دیے گئے بابچینکو کے منظر عام آنے نے یوکرائنی حکومت کے لیے خاصی شرمندگی کا بھی سامان پیدا کیا ہے۔ ملکی وزیراعظم وولودیمیر گروئسمان نے صحافی کی ہلاکت پر ماسکو حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے اُسے ’مطلق العنانیت کی مشین‘ قرار دیتے ہوئے روسی حکومت سے بابچینکو کے قاتل پکڑنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ اسی طرح کییف حکومت کے وزیر خارجہ پاولو کلیمکِن نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی تھی۔ ابھی یوکرائنی اتحادیوں کا ردعمل آنا باقی ہے۔
کریمیا کا بحران: روسی اقدام اور اُس کے نتائج
روس اور کریمیا کی ماسکو نواز حکومت نے بڑی ہی تیز رفتاری کے ساتھ اس جزیرہ نما کو وفاق روس کا حصہ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس روسی اقدام کو بھی برسلز میں منعقدہ یورپی یونین کی سربراہ کانفرنس میں زیر بحث لایا گیا ہے۔
تصویر: Reuters
یورپی یونین کی سربراہ کانفرنس اور یوکرائن
یورپی یونین کی برسلز میں منعقدہ سربراہ کانفرنس میں روس کے خلاف مزید پابندیوں کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جمعہ اکیس مارچ کو ختم ہونے والی اس دو روزہ سربراہ کانفرنس میں یورپی یونین نے کریمیا میں روسی اقدام کے خلاف ایک تعزیری اقدام کے طور پر روس کے ساتھ اپنی اگلی سربراہ کانفرنس منسوخ کرنے کا بھی اعلان کیا۔
تصویر: REUTERS
عزائم پر برق رفتاری سے عملدرآمد
روس نے بحیرہء اسود کے جزیرہ نما کریمیا پر اپنی عسکری قوت بڑھانا شروع کر دی ہے۔ بدھ اُنیس مارچ کو روس نواز قوتوں نے یوکرائن کے کئی ایک فوجی اڈوں پر کنٹرول حاصل کر لیا، جیسے کہ مثلاً بندرگاہی شہر سیواستوپول میں، جہاں یہ تصویر اتاری گئی۔
تصویر: Reuters
آئین سے ہم آہنگ اقدام
ایک جانب روسی فوجی پیریوالنوئے میں واقع پوکرائن کے فوجی اڈے میں داخل ہو رہے تھے، دوسری طرف روسی آئینی عدالت کریمیا کو وفاق روس کا حصہ بنانے کے معاہدے کو آئین سے ہم آہنگ قرار دے رہی تھی۔ بین الاقوامی سطح پر اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا جا رہا تاہم روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اس معاہدے پر اٹھارہ مارچ منگل کو ہی اپنے دستخط ثبت کر دیے تھے۔ روسی پارلیمان کے دونوں ایوان بھی اس کی توثیق کر چکے ہیں۔
تصویر: Dan Kitwood/Getty Images
خاموش پسپائی
خبر رساں اداروں کے مطابق یوکرائن کے ایک میجر نے یہ بتایا کہ ’روسی فوجی یہاں پہنچ گئے اور اُنہوں نے ہم سے یہ اڈہ چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا‘۔ اس تصویر میں ایک فوجی افسر نوووسیرنے کے اڈے سے جاتا نظر آ رہا ہے۔ اگرچہ یوکرائن نے کریمیا سے اپنے فوجی واپس بلانے کا اعلان کیا ہے لیکن کہا ہے کہ فوج کو چوکنا رہنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔
تصویر: FILIPPO MONTEFORTE/AFP/Getty Images
شاندار ہال میں متاثر کن آمد
اٹھارہ مارچ کو ولادیمیر پوٹن نے کریملن کے شاندار گیورگ ہال میں ایوانِ زیریں دُوما کے نمائندوں اور روسی وفاق کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کریمیا کو روس کا ’اٹوٹ انگ‘ قرار دیا اور مغربی دنیا پر الزام عائد کیا کہ اُس نے یوکرائن میں ’ایک سرخ لائن‘ عبور کی ہے۔
تصویر: Reuters
پہلے بیانات اور فوراً بعد عملی اقدامات
پوٹن کے بیانات کے فوراً بعد عملی اقدامات شروع کر دیے گئے۔ کریملن میں ایک شاندار تقریب میں روس میں کریمیا کی شمولیت کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس تصویر میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ساتھ کریمیا کی ماسکو نواز حکومت کے سربراہ سیرگئی آکسیونوف (انتہائی بائیں جانب)، کریمیا کی پارلیمان کے ترجمان ولادیمیر کونسٹانٹینوف (بائیں سے دوسرے) اور سیواستوپول کے میئر الیکسی شالی (دائیں) نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters
امیدیں اور توقعات
کریمیا میں ایک ساتھ مایوسی بھی ہے اور جشن بھی۔ جہاں یوکرائن کے فوجی اور اُن کے اہلِ خانہ اس جزیرہ نما سے رخصت ہو رہے ہیں، وہاں کریمیا کے دیگر باسی روسی کے ساتھ الحاق کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ سیواستوپول میں جمع ایک روس نواز شہری نے کہا، ’مجھے یقین ہے کہ ہماری زندگی بہتر ہو جائے گی‘۔
تصویر: Reuters
الحاق کی حمایت میں تالیاں
کریمیا میں سینکڑوں افراد نے کریمیا کو روس کا حصہ بنانے سے متعلق پوٹن کی تقریر کو سنا اور خوشی اور جوش و جذبے کے ساتھ تقریر کے بعد ہونے والے آتش بازی کے مظاہرے کو دیکھا۔ اس تصویر میں لوگ کریمیا کے شہر زیمفروپول میں بڑی اسکرین پر یہ مناظر دیکھ رہے ہیں۔ اتوار سولہ مارچ کو ہونے والے ریفرنڈم میں کریمیا کے 97 فیصد شہریوں نے روس کے ساتھ الحق کے حق میں رائے دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
قوم کی رَگ پر ہاتھ
پوٹن نے کریمیا میں پیش قدمی کرتے ہوئے غالباً روسی عوام کے ایک حصے کے دلی خواہش پوری کر دی ہے۔ قوم کے نام پوٹن کے خطاب کے بعد متعدد شہروں میں اُن کے لاکھوں حامی جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ ماسکو میں اتری اس تصویر میں بھی پوٹن کے حامی جشن مناتے نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: DMITRY SEREBRYAKOV/AFP/Getty Images
’میدان‘ کے سرگرم کارکن
یوکرائن کے دارالحکومت کییف کا مرکزی علاقہ ’میدان‘ گزشتہ کئی مہینوں سے صدر وکٹر یانوکووچ کی حکومت کے خلاف جدوجہد کا مرکز بنا رہا۔ اُس روز بھی، جس روز کریمیا کی یوکرائن سے علیحدگی یقینی نظر آ رہی تھی، اس مقام پر لوگ جمع تھے۔
تصویر: Spencer Platt/Getty Images
یورپی یونین میں شمولیت کی جانب ایک قدم
’میدان‘ میں چند مہینے پہلے کا ایک منظر، جس میں ’یورپی مستقبل کے لیے‘ نامی تحریک کے کارکن یورپی یونین میں یوکرائن کی شمولیت کے موضوع پر ایک ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اب یہ منزل قریب آ گئی ہے۔ برسلز منعقدہ یورپی یونین سربراہ کانفرنس کے موقع پر یونین اور یوکرائن کے درمیان قریبی تعاون کے علامتی اعتبار سے ایک نہایت اہم سمجھوتے پر دستخط ہوئے ہیں۔