مغربی دفاعی اتحاد کے چیف ژینس اشٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ چین اور روس آرکٹک میں موجودگی بڑھا رہے ہیں، جس سے قطب شمالی میں طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ دریں اثنا امریکہ نے آرکٹک کے لیے اپنا سفیر مقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اشتہار
مغربی دفاعی اتحاد کے سیکرٹری جنرل ژینس اشٹولٹن برگ نے ایک جرمن اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ مغربی ممالک کو بھی آرکٹک میں اپنی موجودگی بڑھانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ روس اور چین قطب شمالی کے اس ریجن میں بڑے عزائم رکھتے ہیں اور یہ بات جغرافیائی لحاظ سے تناؤ کا باعث بن سکتی ہے۔
اشٹولٹن برگ نے زور دیا ہے کہ نیٹو کو بھی آرکٹک میں اپنی فوجی صلاحیتوں کو زیادہ مؤثر بنانا ہو گا۔ مغربی دفاعی اتحاد کے سربراہ کے بقول اب اس برفانی ریجن میں عسکری موجودگی ترجیحی بنیادوں پر بڑھانا ہو گی۔
نیٹو کے سربراہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب روس نے یوکرین پر حملے کے بعد آرکٹک کے پولر ریجن میں اپنے عسکری عزائم میں مزید وسعت دینے کا کام شروع کیا ہے۔
تبدیل ہوتا ہوا قطب شمالی
مغربی سائبیریا میں 24 تا 26 ستمبر ہونے والے آرکٹک فورم کے دوران یہ بات ایک بات پھر کھُل کر سامنے آئی کہ اس علاقے کے ممالک تیل سے مالا مال قطب شمالی کے ایک حصے پر اپنا حق جتا رہے ہیں۔
تصویر: Gazprom
آرکٹک کے ایک حصے پر حق جتانے کی کوشش
24 سے 26 ستمبر تک درجنوں سیاستدان اور ماہرین مغربی سائبیریا کے شہر سَلیکہارڈ Salekhard میں جمع ہوئے تاکہ آرکٹک یا قطب شمالی میں ماحولیاتی تحفظ سے متعلق معاملات پر غور کیا جائے۔ مبصرین کے مطابق روس تیل سے مالا مال آرکٹک کے علاقے پر اپنا حق جتانے کا خواہاں دکھائی دیتا ہے۔
تصویر: imago
ماحولیاتی کارکن بمقابلہ تیل کی صنعت
گرین پیس کی طرف سے بحر منجمد شمالی سے تیل نکالنے کے لیے وہاں ڈرلنگ کے خلاف عالمی مہم جاری ہے۔ اس تنظیم کو خدشہ ہے کہ اگر اس علاقے میں تیل سے متعلق کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو اس کے اثرات وہاں کے ماحولیاتی نظام کے لیے تباہ کن ہوں گے۔ ماہرین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس سرد سمندر میں تیل کے اخراج کا کوئی حادثہ پیش آیا تو اس پر قابو پانا انتہائی مشکل ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
وسائل کے حصول کی خواہش
قطب شمالی یا آرکٹک کی برف دنیا کے باقی حصوں کے مقابلے میں دوگنا تیزی سے پگھل رہی ہے۔ برف پگھلنے کی وجہ سے نئے سمندری راستے بن رہے ہیں۔ اس علاقے میں تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش بھی جاری ہے۔ ان تمام انسانی سرگرمیوں کے اثرات ماحول پر پڑ رہے ہیں۔
تصویر: Gazprom
علاقے کے حصول کی دوڑ
آرکٹک سے متصل پانچ ممالک امریکا، کینیڈا، ڈنمارک، ناروے اور روس قطب شمالی کے اس علاقے میں اپنی سرحدوں کے دعوے کر رہے ہیں۔ خیال ہے کہ برف سے ڈھکے اس علاقے میں بہت زیادہ قدرتی وسائل موجود ہیں اور یہی اس دوڑ کا سبب بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
قطب شمالی کے ارد گرد کشتی رانی
روسی کشتی پیٹر 1 نے 2010ء میں شمال مشرق اور شمال مغرب میں یہاں سفر کیا۔ اس راستے پر سفر کبھی ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ تاہم بڑھتی ہوئی عالمی حدت نے اس راستے پر سمندری سفر ممکن بنا دیا ہے۔ گزشتہ تین برس سے شمال مغربی راستے پر کئی تجارتی جہاز آتے جاتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: Crew of -Peter I-
سمندری شارٹ کٹ
چین کے شہر شنگھائی سے جرمنی کے ساحلی شہر ہیمبرگ تک پہنچنے کے لیے قطب شمالی کا شمال مشرقی راستہ شارٹ کٹ ہے۔ اس راستے سے روس تک سمندری راستہ نہر سوئز کی طرف سے ہو کر آنے والے روایتی راستے کے مقابلے میں 6400 کلو میٹر کم ہے۔
تصویر: DW/I. Quaile
برف کے نیچے ’سیاہ سونا‘
ماہرین ارضیات کا اندازہ ہے کہ آرکٹک کے علاقے میں دنیا میں تیل اور گیس کے کُل ذخائر کا 25 فیصد حصہ موجود ہے۔ ماہرین کے مطابق اس علاقے میں ڈرلنگ کے ماحول پر شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود اب قطب شمالی میں ڈرلنگ مشینوں کی گرج سنائی دینے لگی ہے۔
تصویر: AP
قطبی علاقے میں سمندری سیاحت
آرکٹک کے علاقے میں کروز بحری جہازوں کے ذریعے سمندری سیاحت ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ یہاں کی سیاحت خطرات سے خالی نہیں ہے، خاص طور پر سخت سردیوں میں۔ اس کے باوجود سیاح اس علاقے کا سفر کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔
تصویر: DW/I.Quaile
قطب شمالی کے اوپر سے فضائی سفر
تصویر میں دکھائے جانے والے ناروے کے شہر ٹرومزو کے ہوائی اڈے پر اس جہاز پر پرواز سے پہلے اس پر برف جمنے سے بچانے والا یا ڈی آئسنگ اسپرے کیا جا رہا ہے۔ آرکٹک کے علاقے کے فضائی راستوں کے باعث اس خطے میں ایندھن جلنے کے باعث پیدا ہونے والی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/I.Quaile
فوجی مفادات
ڈنمارک، کینیڈا، روس، ناروے اور امریکہ آرکٹک کے مختلف علاقوں پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ اقتصادی مقاصد کے باعث وہاں فوجی سرگرمیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ گرین لینڈ کے مشرقی علاقے ڈینیبورگ (یہ جزیرہ ڈنمارک کا حصہ ہے) میں تنصیبات اہمیت اخیتار کر گئی ہیں۔
تصویر: Irene Quaile
فوجی مشقیں
آرکٹک سے متصل ممالک اس علاقے میں باقاعدگی سے فوجی مشقیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ وہاں بظاہر کوئی تنازعہ موجود نہیں ہے تاہم تمام ممالک وہاں اپنی موجودگی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ امریکا وہاں اپنی ایک آبدوز بھی پہنچا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بہرہ مند ہونے کی چینی خواہش
آرکٹک سے فائدہ صرف پڑوسی ممالک ہی نہیں اٹھانا چاہ رہے بلکہ چین بھی اس کوشش میں لگا ہوا ہے۔ 2012ء میں چین کا ’سنو ڈریگن‘ نامی بحری جہاز قطب شمالی سے ہو کر یورپ جانے والا پہلا جہاز تھا۔ بیجنگ اب برف کاٹنے والا نیا جہاز بنا رہا ہے اور آرکٹک کونسل میں مبصر ملک بننے کا بھی خواہشمند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آرکٹک کے علاقے میں ایشیا
قطب شمالی کے علاقے سوالبارڈ میں بھارت بھی 2008ء سے ایک ریسرچ اسٹیشن چلا رہا ہے۔ جاپان اور جنوبی کوریا بھی پہلے سے وہاں ریسرچ میں مصروف ہیں۔ آرکٹک کے اس حصے کو ’ہائی نارتھ‘ یا ’اونچا شمال‘ کہتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Quaile
13 تصاویر1 | 13
جرمن جریدے ویلٹ ام زونٹاگ سے گفتگو میں اشٹولٹن برگ نے مزید کہا کہ آرکٹک کا ریجن دراصل 'اسٹریٹیجک حوالے سے بہت ہی زیادہ اہمیت‘ کا حامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغربی فوجی الائنس قطب شمالی کے اس ریجن میں ہونے والی عسکری سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی خاطر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
روس کی طرف سے نئے تجربات
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سربراہ نے یہ بھی کہا ہے کہ روس نے حالیہ عرصے کے دوران آرکٹک کے علاقوں میں اپنی سرگرمیوں میں تیزی پیدا کی ہے۔
اشٹولٹن برگ کے مطابق ماسکو حکومت نے قدرتی وسائل سے مالا مال آرکٹک میں 'سوویت دور کے فوجی اڈے‘ بنائے ہیں، جہاں انتہائی جدید اسلحے بشمول ہائپر سونک میزائلوں کے تجربات بھی کیے جا رہے ہیں۔
اشٹولٹن برگ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آرکٹک کے برفانی علاقوں میں جہاز رانی بھی ممکن ہو سکے گی، اس لیے چین نے بھی اس ریجن میں اپنی دلچسپی بڑھا لی ہے۔
چینی ریاست خود کو آرکٹک کے قریب واقع ایک ملک قرار دیتی ہے جبکہ اس کا منصوبہ ہے کہ اس ریجن میں پولر سلک روڈ بنایا جائے تاکہ وہاں کے قدرتی وسائل سے فائدہ حاصل کیا جا سکے۔
آرکٹک کے لیے اولین امریکی سفیر
امریکی حکومت نے کہا ہے کہ وہ آرکٹک ریجن کے لیے اپنا اولین سفیر مقرر کرے گی۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر سینیٹ سے منظوری ملنا ابھی باقی ہے۔