آزادیِ رائے سے متعلق متنازعہ ترک قانون میں ترمیم
30 اپریل 2008کرمنل کوڈ کے آ رٹیکل تین سو ایک کو کافی عرصے سے یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنقید کا سامنا تھا۔اس قانون کے تحت ترک تشخص کو مجروح کرنے والا کوئی بھی شخص مجرم تصوّر کیا جاتا تھا۔ اس قانون کے تحت سینکڑوں دانش ور اور اہلِ ادب پر مقدمات چلائے گئے۔ان میں سب سے زیادہ معروف مقدمات نوبیل انعام یافتہ مصنّف اورہان پاموک اور آرمینیائی صحافی ہرانٹ ڈنک کے ہیں جس کو ترک تشخص کو مبینہ طور پر مجروح کرنے کے الزام میں قتل کر دیا گیا تھا۔
ترک تشخص کے حوالے سے جرم کا ارتکاب کیسے؟
ترک پارلمنٹ کی جانب سے اس قانون میں ترمیم کے بعد اب ترک تشخّص کو مجروح کیا جانا تو جرم کے زمرے میں نہیں آئے گا بلکہ ترک قوم کی تضحیک یا تذلیل کرنے والا شخص قانون کے تحت سزا کا حق دار ہوگا۔اس کے علاوہ اب جرم کی سزا موت یا عمر قید سے کم کر کے محض دو یا تین سال قید کی سزا میں تبدیل کر دی گئی ہے۔
اس حوالے سے اے کے پی پارٹی کے نائب چئیر مین بیکر بوزداگ کا کہنا ہے کہ پاموک صاحب نے ادب کا نوبیل انعام حاصل کیا اور ترکی میں ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ہم نے ان کے ایک بیان کی پاداش میں انہیں کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اظہارِ رائے کی آزادی میں ناقدانہ آوازوں کے اظہار کی ضمانت دی جانی چاہیے۔
یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قانون کے خاتمے کے لیے طویل جدو جہد کی ہے۔ اس قانون میں ترمیم کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں کے ابتدائی ردِ عمل سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس حوالے سے ترک حکومت پر مزید دباﺅ ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ان تنظیموں کا موقف ہے کہ قانون میں ترمیم نہیں بلکہ اس کے مکمل خاتمے کی ضرورت ہے۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ متنازعہ قانون میں ترمیم در حقیقت یورپی یونین کو رجھانے کی ترک حکومت کی ایک کوشش ہے۔ بعض حلقوں کی رائے میں آزادیِ رائے سے متعلق قانون میں ترمیم اس قانون کے مکمل خاتمے کے ضمن میں پہلی سیڑھی ہے۔