1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیلاروس میں ’آزادی مارچ‘، صدر کا ’آمرانہ‘ اقتدار خطرے میں

17 اگست 2020

مشرقی یورپی ملک بیلاروس میں صدر لوکاشینکو کے 26 سالہ اقتدار کو اب تک کی سب سے بڑی عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔

Belarus Protest gegen Alexander Lukaschenko und Supporter
تصویر: Getty Images/S. Gapon

بیلاروس میں نو اگست کے صدارتی انتخابات میں مبینہ حکومتی دھاندلی کے خلاف لوگوں کا غم و غصہ کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہا ہے۔ روزانہ کے مظاہروں کے بعد اب ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

پیر کو دیگر حکومتی اداروں کے ساتھ سرکاری ٹی وی چینل کے ملازمین نے بھی واک آؤٹ کیا۔ نتیجتاﹰ ٹی وی چینل کی صبح کی نشریات کے دوران سیٹ پر خالی کرسیاں دکھائی جاتی رہیں اور پیچھے پاپ میوزک بجتا رہا۔

اس سے قبل اتوار کو دسیوں ہزار لوگوں نے دارالحکومت منِسک کی سڑکوں پر صدر الیکسزانڈر لوکاشینکو کے خلاف ریلی نکالی۔

مبصرین کے مطابق یہ ایک تاریخی ریلی تھی۔ مظاہرین نے سفید و سرخ پٹیوں والے پرچم  اور غبارے اٹھا رکھے تھے۔ لوگوں نے ہارن بجا کر اور نعرے لگا کر صدر لوکاشینکو کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ حالیہ دنوں کی پر تشدد جھڑپوں کے برعکس یہ ریلی پرامن رہی۔

'ملکی سلامتی کو خطرات‘

ادھر حکومت نے بھی گذشتہ روز صدر الیکسانڈر لوکاشینکو کے حق میں ایک جلسہ منعقد کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق سرکاری جلسے کے لیے لوگوں کو بسوں میں بھر کر لایا گیا لیکن پھر بھی یہ اجتماع قدرے چھوٹا رہا۔

تصویر: Imago Images/ITAR-TASS/V. Sharifulin

اس موقع پر اپنے خطاب میں صدر  لوکاشینکو نے دعویٰ کیا کہ ملک کی اکثریت ان کے ساتھ ہے اس لیے دوبارہ انتخابات کرانے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ وہ آئینی اصلاحات کے لیے تیار ہیں لیکن کسی کے دباؤ میں آ کر ایسا نہیں کریں گے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ نیٹو ممالک بیلاروس کی سرحدوں پر ٹینک اور لڑاکا جہاز  تعینات کر رہے ہیں۔ صدر  لوکاشینکو نے اپنے حمایتیوں سے کہا کہ ملک کی سلامتی کو خطرات ہیں اور لوگوں کو اس کے تحفظ کے لیے آگے آنا ہوگا۔ یورپی یونین اور نیٹو ممالک نے خطے میں ایسی کسی فوجی نقل و حرکت سے انکار کیا ہے۔ 

'ووٹ کو عزت دو‘

بیلا روس کو یورپ کی آخری آمریت بھی کہا جاتا ہے۔ صدر الیکسانڈر لوکاشینکو سن 1994 سے اس سابق سویت ریاست کے حاکم چلے آ رہے ہیں۔ ان برسوں میں صدر لوکاشینکو نے چھ بار مسلسل انتخابات  جیتے ہیں اور ہر بار اپنے مخالفین کا تقریباﹰ صفایا کردیا۔

دارالحکومت مِنسک میں حکام کے مطابق اس بار بھی اتوار نو اگست کو ہونے والی ووٹنگ میں انہیں 80.1 فیصد ووٹ ملے جبکہ ان کی مدمقابل خاتون امیدوار سویٹلانا ٹیخانوسکایا کے حق میں صرف 10.12 فیصد ووٹ آئے۔ مبصرین کے مطابق ماضی کی طرح اس بار بھی کئی مقامات پر دھاندلی کا سہارا لیا گیا۔

تصویر: Getty Images/AFP/S. Gapon

یورپی یونین کا دباؤ

بیلاروس میں انسانی حقوق کی بے دریخ پامالیوں کے خلاف یورپی یونین کی طرف سے بھی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ صدر لوکاشینکو کی حکومت کی سرزنش کی جائے اور حکومت پر پابندیاں عائد کی جائیں۔

برطانیہ نے ان انتخابی نتائیج کو مسترد کر دیا ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ یورپی یونین کو چاہیے کہ وہ کھل کر ان حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کرے۔  جرمنی کے وزیر خزانہ اولاف شُلز نے صدر لوکاشینکو کو ایک 'آمر‘ قرار دیا، جو ان کے مطابق لوگوں کا اعتماد کھو چکا ہے۔ یورپی یونین بیلاروس حکومت میں صدر لوکاشینکو کے قریبی ساتھیوں اور دیگر سینئر حکام پر پابندیاں لگانے کے حق میں ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa/M. Klimentyev

 لوکاشینکو کو پوٹن کا سہارا

اس بحران کے ابتدائی دنوں کے دوران صدر لوکاشینکو کے سب سے بڑے اتحادی روس کے صدر ولادیمیر پوٹن خاموش رہے۔ لیکن پچھلے چند دنوں کے دوران جوں جوں صدر لوکاشینکو پر دباؤ بڑھتا رہا، دونوں رہنماؤں کے درمیان متعدد بار رابطہ اور مشاورت ہو ئی ہے۔ ماسکو نے صدر لوکاشینکو کے اس موقف کی تائید کی ہے کہ اس بحران کے پیچھے بیرونی عناصر کارفرما ہیں۔

صدر لوکاشینکو نے اپنے تین مغربی ہمسایہ ممالک پولینڈ، لتھووینیا اور لیٹویا پر الزام لگایا ہے کہ وہ حکومت مخالف تحریک کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ماسکو نے خبردار کیا ہے کہ اگر مغربی ممالک بیلاروس میں مداخلت سے باز نہ آئے تو روس بیلاروس سمیت چھ سابق سویت ملکوں کے فوجی اتحاد کو حرکت میں لا سکتا ہے۔

 ش ج، ک م (روئٹرز، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں