آزاد محبت اور خواتین: جرمنی میں جنسی انقلاب کی نصف صدی
20 اگست 2018
انیس سو ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں سابقہ مغربی جرمن ریاست میں نوجوان بہت سی تبدیلیوں کے مطالبے کرتے ہوئے سماجی، ثقافتی اور جنس سے متعلق سوچ میں تبدیلیوں کی بات کرتے تھے۔ یہی مطالبات ’جنسی انقلاب‘ کی وجہ بنے تھے۔
اشتہار
سرد جنگ اور دو مختلف ریاستوں کی صورت میں دنیا کے نقشے پر موجود جرمنی کے تب مغربی حصے میں، جو وفاقی جمہوریہ جرمنی کہلاتا تھا، نوجوانوں کے مطالبات آج سے نصف صدی قبل معاشرتی حوالے سے جس ’جنسی انقلاب‘ کا سبب بنے تھے، اس کی بہت سی تاریخی تبدیلیوں سے گزرنے کے بعد آج کے دوبارہ متحد جرمنی میں خاص طور پر عورتوں کے لیے کیا اہمیت ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے، جس کا جواب مشکل نہیں ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد کی مغربی جرمن ریاست میں عوام کی ’جنسی اخلاقیات‘ کی خاص بات وہ سوچ تھی، جس میں بہت سی باتوں کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہوئے نوجوانوں کو ان کے خلاف تنبیہ کی جاتی تھی۔ یعنی ہر وہ بات یا شے جس کا تعلق جنس سے ہوتا تھا، اس کے بارے میں بات کرنے سے پرہیز کیا جاتا تھا کیونکہ یہ سب کچھ تب ’بے شرمی‘ سمجھا جاتا تھا۔ تب نوجوانوں اور بچوں کو بھی اس موضوع پر کسی بھی طرح کے تبادلہ خیال سے روکنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
معروف جرمن خاتون صحافی اور مصنفہ اُلریکے ہائیڈر کو ابھی تک یاد ہے کہ کس طرح وہ اس موضوع پر تب مغربی جرمن ریاست میں کیے جانے والے مظاہروں میں شریک ہوتی تھیں۔ اسی طرح کے عوامی مظاہرے، خاص طور پر نوجوانوں کی طرف سے، تب پورے یورپ میں دیکھنے میں آئے تھے۔ ان واقعات کو یورپ کی گزشتہ صدی کی تاریخ میں ’1968 کے واقعات‘ اور ایسے مظاہرین کو ’1968ء والی نسل کے افراد‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
الُریکے ہائیڈر کہتی ہیں کہ تب انسانی زندگی کے ایک اہم پہلو کے طور پر انہیں پہلی بار جنس کے موضوع پر تفصیلی لیکن ’سوچ کو واضح کر دینے والی‘ گفتگو کا موقع جرمن سوشلسٹ اسٹوڈنٹس یونین کی ایک رکن کی وجہ سے ملا تھا۔ لیکن اس کا بھی ایک افسوسناک پہلو یہ تھا کہ اس بارے میں جب انہوں نے اپنی والدہ سے بات کی تھی، تو ان کی والدہ نے انہیں ’فاحشہ اور بازاری عورت‘ قرار دیا تھا۔
الُریکے ہائیڈر نے ڈی ڈبلیو ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’تب میری والدہ کی خواہش تھی کہ میں بیس بائیس برس کی عمر میں کسی امیر ڈاکٹر یا وکیل سے شادی کر لوں۔ میرے بچے ہونا چاہییں اور مجھے اپنے مستقبل کے گھر کی دیکھ بھال کرنا تھی۔‘‘ مطلب یہ کہ جو بات جنس سے جوڑ کر معاشرے میں ممنوعہ موضوع سمجھی جاتی تھی، اس کا تعلق جنس، جنسی تعلقات اور جنسی آزادی سے بھی تھا لیکن ساتھ ہی عورتوں کے بارے میں ان کی صنف کے باعث پائے جانے والے سماجی رویوں سے بھی۔
تب مغربی جرمنی سمیت یورپ میں خواتین کو زیادہ تر خود یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا کہ انہیں حاملہ ہونا چاہیے یا نہیں۔ پھر پہلی بار جب مانع حمل گولیاں بھی مارکیٹ میں آنا شروع ہو گئیں، تو یہ فیصلہ خود خواتین کرنے لگیں کہ وہ کب حاملہ ہونا چاہیں گی اور کب نہیں۔ اس طرح انہیں سماجی طور پر یہ موقع بھی مل گیا کہ وہ اپنی شادیاں دیر سے کرنے اور پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنے اور اپنی پیشہ ورانہ کامیابی کو یقینی بنانے کے فیصلے خود کر سکیں۔
خواتین جو دنیا میں تاریخ رقم کر گئیں
عالمی یوم خواتین پر آپ کو ان دس خواتین کے بارے میں بتاتے ہیں، جنہوں نے بے خوف و خطر اور بلند حوصلے کی بدولت تاریخ میں اپنا نام رقم کیا۔
تصویر: Imago
دنیا کی پہلی فرعون خاتون:
ہیتھ شیپسوٹ (Hatshepsut) اپنے خاوند کی موت کے بعد تاریخ میں بنے والی پہلی فرعونہ تھی۔ وہ نہ صرف کامیاب ترین حاکموں میں سے تھیں بلکہ قدیم مصر کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والی خواتین میں سے بھی ایک تھیں۔ دو دہائیوں پر مشتمل ان کا دور حکومت نہایت پُر امن تھا جس میں تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ اس کے باوجود ان کے بعد آنے والے جانشینوں نے ان کا نام تاریخ سے مٹانے کی بھرپور کوششیں کی۔
تصویر: Postdlf
مقدس شہید:
سن 1425 میں انگلینڈ اور فرانس کے درمیان سو سالہ جنگ جاری تھی، جب ایک کسان کی 13 سالہ بیٹی جون پر کشف ہوا کہ وہ فرانس کی حفاطت کرتے ہوئے فرانسیسی تخت کو چارلس ہفتم کے لیے تسخیر کرے۔ 1430 میں اپنی کوششوں کے دوران ان کو گرفتار کر لیا گیا اور سزا کے طور پر زندہ جلا دیا گیا۔
تصویر: Fotolia/Georgios Kollidas
مضبوط ارادہ کمانڈر:
کیتھرین دوئم نے بغاوت کے دوران اپنے خاوند اور زار روس کے قتل کے بعد خود کو بطور نیا زار روس پیش کیا۔ انہوں نے اپنی خود اعتمادی کی بدولت روس کی عظیم الشان سلطنت پر اپنا اثر قائم کیا اور اپنی کامیاب مہمات میں پولینڈ اور کریمیا کا علاقہ تسخیر کیا۔ وہ روس میں سب سے طویل عرصہ حکومت کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔ اسی مناسبت سے انہیں’ کیتھرین دی گریڈ‘ کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/akg-images/Nemeth
دور اندیش ملکہ:
ملک اس وقت شدید انتشار کا شکار تھا جب ایلزبتھ اول نے تخت برطانیہ سنبھالا۔ انہوں نے اپنے دور میں نہ صرف کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسالک کے درمیان جاری جنگ میں مصالحتی کردار ادا کیا بلکہ برطانیہ کو ایسے سنہری دور سے روشناس کروایا جہاں ادب اور ثقافت پھلے پھولے۔ ان کے دور میں اسپین کے عظیم بحری بیڑے کو بھی شکست فاش ہوئی۔
تصویر: public domain
حقوق خواتین کی سرگرم کارکن:
سن 1903سے برطانیہ میں خواتین کو ووٹ کا حق دلانے کے لیے جتنی بھی تحریکیں چلائی گئی، ان کی بانی ایمیلین پنکہرسٹ رہیں۔ انہیں ایک سے زائد بار جیل بھی کاٹنی پڑی لیکن ان کی انتھک تحریکوں کی بدولت 30 برس سے زائد عمر کی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق مل گیا۔
تصویر: picture alliance/akg-images
انقلابی:
روزا لیگزمبرگ اس زمانے میں جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک موومنٹ کی صدر تھیں جس زمانے میں کسی خاتون کا کسی طاقتور عہدے پر تعین ہونا ممکن نہیں تھا۔ وہ جرمنی کی کمیونسٹ پارٹی اور سپارٹکس لیگ کی بانی بھی تھیں جس نے پہلی عالمی جنگ کے خلاف آواز بلند کی۔ انہیں 1919 میں جرمن آفسروں نے قتل کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
تابکاری کی تحقیق دان:
تابکاری پر کی جانے والی پہلی تحقیق پر میری کیوری کو نوبل انعام دیا گیا۔ وہ یہ انعام حاصل کرنے والی تاریخ کی پہلی خاتون ہیں۔ ان کو دوسرا نوبل انعام، ریڈیم اور پلونیم کی دریافت پر دیا گیا۔ اس کے علاوہ وہ پیرس یونیورسٹی میں مقرر ہونے والی پہلی خاتون پروفیسر بھی ہیں۔
تصویر: picture alliance/Everett Collection
ہولوکاسٹ کی آموزگار:
آنے فرانک نے سن 1942 سے سن 1944 تک کے عرصے میں اپنی ڈائری میں جو تحریریں درج کی، وہ ہولوکاسٹ کے وقت پیش آنے والے واقعات کے بارے میں نہایت اہم سند خیال کی جاتی ہے۔ 1945ء میں انہیں Auschwitz بھیج دیا گیا، جہاں ان کی موت واقع ہوئی۔
تصویر: Internationales Auschwitz Komitee
پہلی افریقی امریکی نوبل انعام یافتہ:
کینیا کی ونگاری ماتھائی1970ء میں ماحولیات اور حقوق خواتین کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا۔ وہ گرین بیلٹ موومنٹ کی بانی بھی تھیں، جس میں بھوک اور پانی کی کمی کے علاوہ خشک سالی اور جنگلات کی کٹائی کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ انہیں ان مسائل پر آواز اٹھانے پر سن 2004 میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
لڑکیوں کے حقوق کے لیے لڑنے والی کم عمر ترین کارکن:
ملالہ یوسف زئی صرف گیارہ برس کی تھی جب انہوں نے طالبان کی دہشت گرد حکمرانی کے خلاف بی بی سی پر رپورٹنگ کی۔ جب ان کے اسکول کو بندش کا سامنا کرنا پڑا تو اس کے خلاف انہوں نے اپنی آواز بلند کی جس کی پاداش میں ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ انہوں نے اپنی ایک خود نوشت بھی تحریر کی ہے۔
تصویر: Getty Images
10 تصاویر1 | 10
یہ انہی سماجی، ثقافتی اور جنسی تبدیلیوں کا نتیجہ تھا کہ اگر کوئی حاملہ خاتون بچے کو جنم نہیں دینا چاہتی تھی، تو وہ یہ فیصلہ خود کر سکتی تھی کہ آیا اسے اسقاط حمل کرا لینا چاہیے۔ اسی طرح خواتین کی ان کے لباس سے متعلق ترجیحات بھی تبدیل ہو چکی تھیں۔ وہ اپنی زندگی میں خوشی، آزادی اور لذت کو ترجیح دینا سیکھ چکی تھیں اور تب نوجوان مردوں اور خواتین سب کا نعرہ یہ تھا، ’’پیار کرو، جنگ نہیں۔‘‘ مطلب یہ تھا کہ آزادی کے عملی احساس کے لیے اطمینان اور خوشی زیادہ اہم ہیں، نہ کہ یہ کہ گولیوں اور بموں کو استعمال کرتے ہوئے جنگیں ہی کی جائیں اور انسانوں کو ہلاک کیا جائے۔
اس انقلاب کے پچاس سال بعد آج صورت حال یہ ہے کہ آج کے جرمنی اور یورپ کی خواتین کو یہ علم ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکتی ہیں۔ جنس کوئی ممنوعہ موضوع نہیں اور اسے ایک سماجی حقیقت اور انسانوں کی ذاتی اور معاشرتی زندگی کے ایک اہم پہلوکے طور پر دیکھا جاتا ہے، نہ کہ اس پر بات کرنے سے کترایا جائے۔ اسی طرح آج اگر یورپ میں کوئی خاتون اپنی مرضی کا لیکن چاہے کتنا ہی مختصر لباس پہنے ہوئے نظر آئے، تو اس کو تنقیدی نظروں سے دیکھنے کے بجائے اسے اس کا ذاتی فیصلہ سمجھ کر قبول کیا جاتا ہے۔
حقوق نسواں کے موضوع پر 2016ء میں ایک کتاب لکھنے والی معروف جرمن مصنفہ مارگریٹے سٹوکووسکی کے مطابق مردوں اور خواتین کے مابین سماجی، ثقافتی اور جنسی حقوق میں مساوات کو یقینی بنانے کے لیے اب بھی بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ نصف صدی قبل آنے والے جنسی انقلاب کے باعث پانچ عشرے پہلے تک کی اور آج کی صورت حال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
بیٹینا باؤمان / م م / ا ا
’بروڈول‘ سیکس ڈولز پر مشتمل جرمن قحبہ خانہ پر ایک نظر
جرمن شہر ڈورٹمنڈ میں ایک ایسا قحبہ خانہ بھی ہے جہاں مرد، خواتین اور جوڑوں کو ان کی جنسی تسکین کے لیے سلیکون سے بنائی گئی گڑیاں مہیا کی جاتی ہیں۔ تفصیلات ڈی ڈبلیو کے چیز ونٹر کی ’بروڈول‘ سے متعلق اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: DW/C. Winter
حقیقی خواتین کیوں نہیں؟
یہ کاروبار تیس سالہ جرمن خاتون ایویلین شوارز نے شروع کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ قحبہ خانے میں کام کرنے کے لیے انہیں جرمن خواتین نہیں مل رہی تھیں اور غیر ملکی خواتین جرمن زبان پر عبور نہیں رکھتیں۔ شوار کے مطابق ان کے جرمن گاہکوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ پیشہ ور خواتین ان کی بات درست طور پر سمجھ پائیں۔
تصویر: DW/C. Winter
بے زبان گڑیا
ایویلین شوارز نے ٹی وی پر جاپانی سیکس ڈولز سے متعلق ایک رپورٹ دیکھی تو انہیں لگا کہ غیر ملکی خواتین کے مقابلے میں سیکس ڈولز پر مشتمل قحبہ خانہ زیادہ بہتر کاروبار کر پائے گا۔ شوارز کے مطابق، ’’یہ دکھنے میں خوبصورت ہیں، بیمار بھی نہیں ہوتی اور بغیر کسی شکایت کے ہر طرح کی خدمات پیش کر سکتی ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
جذبات سے عاری اور تابعدار
’بروڈول‘ کی مالکہ کا کہنا ہے کہ کئی گاہگ سماجی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور وہ لوگوں سے بات چیت کرنے سے کتراتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے جذبات سے عاری سیکس ڈولز باعث رغبت ہوتی ہیں۔
تصویر: DW/C. Winter
مردوں کی انا کی تسکین
جسم فروش خواتین کے پاس آنے والے گاہکوں کو مختلف خدمات کے حصول کے لیے پیشگی گفتگو کرنا پڑتی ہے جب کہ سلیکون کی بنی ہوئی یہ گڑیاں بغیر کسی بحث کے مردوں کی خواہشات پوری کرتی ہیں۔ ایویلین شوارز کے مطابق، ’’ان گڑیوں کے جذبات کا خیال رکھے بغیر مرد گاہگ جتنا چاہیں انا پرست ہو سکتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
خطرناک جنسی رویے
اس قحبہ خانے کا رخ کرنے والوں میں مرد و زن کے علاوہ ایسے جوڑے بھی ہوتے ہیں جو شوارز کے بقول خطرناک جنسی رویوں کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے گاہگوں کے لیے ’بی ڈی ایس ایم‘ کمرہ بھی موجود ہے۔ شوارز کے مطابق، ’’ کسی خاتون کے ساتھ پر تشدد ہونے کی بجائے گڑیا کے ساتھ ایسا کرنا بہتر ہے۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
گڑیوں کے ساتھ بھی جذباتی لگاؤ
شوارز کے مطابق اس قحبہ خانے میں آنے والوں گاہکوں میں سے ستر فیصد دوبارہ لوٹ کر ضرور آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو ہر ہفتے یہاں آتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ ان گڑیوں سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Winter
سماجی قبولیت بھی ہے؟
’بروڈول‘ ایسا پہلا قحبہ خانہ نہیں ہے جہاں سلیکون کی گڑیاں رکھی گئی ہیں۔ جاپان میں ایسے درجنوں کاروبار ہیں اور حالیہ کچھ عرصے کے دوران ہسپانوی شہر بارسلونا اور جرمن دارالحکومت برلن میں بھی ایسے قحبہ خانے کھولے جا چکے ہیں۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپ میں اس کاروبار کے مستقبل سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
تصویر: DW/C. Winter
یہ کاروبار کتنا اخلاقی ہے؟
اس قحبہ خانے کی مالکہ کے مطابق انہیں اس کاروبار کے اخلاقی ہونے سے متعلق کوئی تحفظات نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ تو بس کھلونوں کی مانند ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
سیکس ڈولز کے چہروں کے بچگانہ خدوخال؟
کئی ناقدین نے سلیکون کی بنی ان گڑیوں کے چہروں کے بچگانہ خدوخال کے باعث شدید تنقید بھی کی ہے۔
تصویر: DW/C. Winter
’صفائی کاروباری راز‘
قحبہ خانے کا آغاز چین سے درآمد کی گئی چار گڑیوں سے کیا گیا تاہم طلب میں اضافے کے سبب اب یہاں سلیکون کی بارہ سیکس ڈولز ہیں جن میں سے ایک مرد گڑیا بھی ہے۔ ’بروڈول‘ کی مالکہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صفائی کیسے کی جاتی ہے، یہ ان کا کاروباری راز ہے لیکن ان یہ بھی کہنا تھا کہ ہر گاہک کے بعد گڑیوں کی مکمل صفائی کر کے انہیں ہر طرح کے جراثیموں سے پاک کیا جاتا ہے۔