آسام میں چار ملین افراد مصدقہ شہریوں کی فہرست سے خارج
30 جولائی 2018
رجسٹرار جنرل آف انڈیا کے مطابق بھارتی ریاست آسام میں مصدقہ شہریوں کی حتمی فہرست جاری کر دی گئی ہے۔ نئی فہرست میں قریب چار ملین تارکین وطن کے ناموں کو خارج کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے بیشتر افراد کو ملک بدری کا خوف ہے۔
اشتہار
بھارت کا موقف ہے کہ گزشتہ کئی عشروں کے دوران لاکھوں بنگلہ دیشی غیر قانونی طور پر ملک کے شمال مشرقی علاقے میں داخل ہوئے اور یہیں آباد ہو گئے۔ بنگلہ دیش تاہم اس بھارتی بیانیے کو مسترد کرتا ہے۔
بھارتی رجسٹرار جنرل شیلیش کمار اور مردم شماری کمشنر کا کہنا ہے کہ اس دستاویز سے خارج کیے گئے افراد کو ملک بدر نہیں کیا جائے گا اور انہیں اس اقدام کے خلاف اپیل دائر کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ شلیش نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مصدقہ شہریوں کی فہرست سے خارج کیے جانے والے افراد تیس ستمبر تک اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر سکتے ہیں اور اپنے بھارتی شہری ہونے کے ثبوت متعلقہ محکمے میں جمع کرا سکتے ہیں۔ جنرل رجسٹرار کے مطابق کسی بھارتی شہری کو ملک بدری کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔ اب تک تیس لاکھ افراد اپنی بھارتی شہریت کی دستاویزات پیش کر چکے ہیں۔
بھارت کے قیام کے بعد سے ہی آسام میں ’غیر قانونی شہریوں‘ کا معاملہ شدید نوعیت کا ایک حساس سیاسی مسئلہ رہا ہے۔ آسامی زبان بولنے والے مقامی افراد اور بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کے مابین تعلقات اکثر کشیدہ رہے ہیں۔
بھارت شہریوں کے سرکاری شناختی رجسٹر میں اندراج کا عمل سن 2015 میں شروع کیا گیا تھا۔ رواں سال جنوری کے مہینے میں مبینہ غیر قانونی بنگلہ دیشی شہریوں کو نکالنے کے لیے مصدقہ ملکی شہریوں کی پہلی فہرست جاری کی گئی تھی، جس کے بعد سے بیشتر افراد کو، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، ملک بدری کے خوف کا سامنا ہے۔
خیال رہے کہ آسام میں ایسے افراد کی شناخت کی جا رہی ہے، جو سن انیس سو اکہتر کے بعد بنگلہ دیش سے بھارت میں داخل ہوئے تھے۔
ص ح / ع ا / روئٹرز
کنول کے پھولوں کی گلابی جنت میں خوش آمدید
بنگلہ دیش میں ہر سال اکتوبر کے مہینے میں باریشال شہر سے ساٹھ کلو میٹر دور واقع لینڈ اسکیپ گلابی رنگ کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔ یہ نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ دیکھیے تو جھیل کے پانی پر کنول کے پھول کیسے رنگ بکھیر رہے ہیں۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
جھیل کنول
کنول کے پھولوں سے بھری ہوئی یہ جھیل اجیر پور سب ڈسٹرکٹ کے گاؤں ساتھلا میں واقع ہے۔ ساتھلا میں ایسی کئی جھیلیں ہیں جنہیں آج کل گلابی پھولوں نے اسی طرح ڈھک رکھا ہے۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
جھیل تک کیسے پہنچیں؟
ساتھلا گاؤں کی جھیلوں میں افراط میں کھلے کنول کے پھولوں کو دیکھنے کے لیے ڈھاکا سے باریشال شہر پہنچنا ہوتا ہے اور وہاں سے ساتھلا گاؤں تک کا راستہ آٹو رکشہ کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
صبح صبح جانا ہو گا
پھولوں کے حسن کا دل بھر کے نظارہ کرنا ہے تو پھر صبح سویرے جانا ہو گا۔ جیسے جیسے دن ڈھلتا ہے پھول کم ہوتے جاتے ہیں کیونکہ تب تک مقامی لوگ انہیں توڑ کر لے جا چکے ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
ناؤ کی سواری
جھیل میں چھوٹی چھوٹی کشتیاں جا بجا نظر آتی ہیں۔ مقامی لوگ سیاحوں کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جھیل کی سیر کراتے ہیں جو اُن کی کمائی کا ذریعہ بھی ہے۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
قدرتی حسن بھی آمدن بھی
یہ پودے نہ صرف مقامی کسانوں کو ایک دل لبھانے والی خوبصورتی سے محظوظ ہونے کا موقع دیتے ہیں بلکہ اُن کے لیے آمدنی کا ذریعہ بھی ہیں۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
پھول بیچیں بھی اور کھائیں بھی
بہت سے کسان یہاں کھلنے والے کنول کے پھولوں کو مقامی بازاروں میں بطور سبزی بیچنے کے لیے جمع کرتے ہیں۔ ان پھولوں کو پکایا بھی جاتا ہے۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
مچھلیاں بھی افراط میں
نہ صرف یہ پھول مقامی آبادی کو روزگار فراہم کرتے ہیں بلکہ اسی سیزن میں جھیل میں مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ مچھلیاں بھی نہ صرف بازار میں فروخت کی جاتی ہیں بلکہ گاؤں والوں کی خوراک کا ایک ذریعہ بھی بن جاتی ہیں۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
باقی موسموں میں کھیتی باڑی
کنول کھلنے کے موسم میں تو مقامی لوگوں کا گزارہ انہیں بیچ کر اور کھانے میں استعمال کر کے ہو جاتا ہے۔ دیگر موسموں میں یہاں کے لوگ کھیتی باڑی اور مویشی بانی کے ذریعے گزر بسر کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
ایک گلدستے کی قیمت پانچ ٹکے
ایک پھولوں کا گچھہ جس میں پندرہ سے بیس پھول ہوتے ہیں، تین سے پانچ ٹکوں میں فروخت ہوتا ہے۔ پھولوں کو توڑنے میں صرف بڑے لوگ ہی نہیں بلکہ گاؤں کے بچے بھی بہت ذوق وشوق سے حصہ لیتے ہیں۔ یہ کام اُن کے لیے کھیل بھی ہے اور پیسے کمانے کا ذریعہ بھی۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
سیاحوں کے لیے سہولیات نہیں
ساتھلا گاؤں کی کنول کے پھولوں سے مرصّع جھیلوں کو بنگلہ دیش بھر سے سیاح دیکھنے آتے ہیں۔ تاہم بنگلہ دیش کے محکمہ سیاحت نے ابھی تک ان سیاحوں کے ٹھہرنے کے لیے ہوٹل اور جھیل تک پہنچنے کے لیے ٹرانسپورٹ کا کوئی بندوبست نہیں کیا ہے۔