عاصم کا کہنا ہے کہ اگر انہیں قرض ایک ہفتے میں اتارنا ہے تو وہ ہفتہ پورا ہونے سے پہلے ہی دھمکی آمیز کالز کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ادا کرنے پر قرض کی مقدار بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے آخری قرض 23 ہزار روپے کا لے کر 30 ہزار ادا کیا اور پھر اس ایپ کو اپنے موبائل سے ڈیلیٹ کیا۔ عاصم کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ڈرانا دھمکانا ایک نارمل بات ہے لیکن اب یہ لوگ تھانے تک کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
پاکستان میں ان لائن قرضہ ایپس کے حوالے سے11 جولائی کو ملکی سطح پر شور بلند ہوا، جب راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ مقصود نے 22 ہزار کا قرض ادا نہ کر سکنے پر ( جو سود کی وجہ سے اب لاکھوں میں بدل چکا تھا) خودکشی کر لی۔ مقصود تین بچوں کا باپ تھا اور اپنے خاندان کے لیے مرنے سے پہلے ویڈیو پیغام بھی چھوڑ کر گیا۔ مقصود کی بیوہ نے حکومت سے ان کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان: ’آن لائن قرض‘ فراہم کرنے والوں کی خطرناک سرگرمیاں
ان لائن قرض کمپنیوں کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں میں قانون کیسے مدد کر سکتا ہے؟
مقصود کی خودکشی کے بعد سوشل میڈیا پر بہت سی لا فرمز اور وکلاء نے عوام کی مدد کے لیے مفت مشاورت اور قانونی مدد کی پیشکش بھی کی اور عوام نے قانونی کارروائی کے حوالے سے جاننے میں بھی دلچسپی کا اظہار کیا۔
طاہر ملک وکیل ہیں ۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لائن قرض دینے والی کمپنیاں قرض واپس نہ کرنے پر، جب لوگوں کو دھمکاتی ہیں، تو بحثیت قانونی ماہر ان کے نزدیک انہیں خوف زدہ ہونے کی بجائے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ قرضہ دینے والی ان آن لائن ایپلیکیشنز کا کاروبار فراڈ پر مبنی ہے۔ یہ کسی مالیاتی ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں بلکہ ان کو فراڈ ڈیکلیئر کیا گیا ہے۔
جبکہ قانونی طریقے سے قرض دینے والے کسی رجسٹرڈ بینک کا نمائندہ بھی آپ کو کال کر کے دھمکا نہیں سکتا چہ جائیکہ کہ یہ ایپس تو بذات خود سرے سے ہی فراڈ ہیں۔ یہ آپ کے خلاف ایف آئی آر وغیرہ درج نہیں کروا سکتے۔ بلکہ خود ان کے خلاف سود پر مبنی پرائیویٹ منی لینڈنگ کے کاروبار میں ملوث ہونے کی وجہ سے ایف آئی آر کٹوائی جا سکتی ہے۔ بغیر مجوزہ لائسنس یا منظوری کے سود کی بنیاد پر قرض دینے کا پرائیویٹ کاروبار ایک قابل دست اندازی اور non-bailable جرم ہے، جس کی سزا دس سال تک قید ہے۔
ان کے پاس آپ کو تنگ کرنے کا ہتھیار صرف فون پر بلیک میل کرنا یا جاننے والوں کو کال کر کے تنگ کرنا ہے۔
کوئی اس طرح ہراساں کرے تو آپ، جس نمبر سے کال آئے، اس کی اطلاع پولیس کو کر سکتے ہیں۔ آپ کے گھر دھمکانے آئیں تو 15 پر کال کر کے پولیس کو بلائیں۔ یہ لوگ پولیس کو کہیں کہ قرضہ واپس نہیں کر رہا تو انہیں بتائیں کہ قرضہ واپسی کا طریقہ عدالت ہے، وہاں جاؤ۔ یہ نہیں جائیں گے کیونکہ یہ فراڈ ہیں۔
ایف آئی اے کی کارروائیاں
وفاقی وزیر آئی ٹی امین الحق نے اسلام آباد میں میڈیا کو غیر قانونی قرضہ ایپلیکیشنز کے خلاف حکومتی اقدامات کے حوالے سے بتایا کہ اب تک 43 ایسی ایپلی کیشنز کو بلاک کیا جا چکا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی اب تک کی رپورٹس کے مطابق اب تک تین کمپنیوں کے خلاف مقدمہ درج جبکہ پانچ ایسی کمپنیوں کے اسلام آباد میں قائم آفس سیل کر دیے گئے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو گرفتار بھی کیا جا رہا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق اب تک ایسی قرضہ کمپنیوں سے منسلک 30 بینک اکاؤنٹس کو بھی بلاک کیا جا چکا ہے۔
ایس ای سی پی سے رجسٹرڈ کمپنیاں
سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ڈیٹا کے مطابق اس وقت پاکستان میں مائیکرو فائنینسنگ کی 11 کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں اور کیونکہ ان کا مکمل ڈیٹا ایس ای سی پی کے پاس موجود ہوتا ہے اور سالانہ آڈٹ بھی کیا جاتا ہے، اس لیے ان کمپنیوں کی طرف سے عوام کو بلیک میل نہیں کیا جا سکتا۔
ایس ای سی پی نے غیر رجسٹرڈ شدہ اور غیر قانونی ایسی 80 کمپنیوں کی تفصیل اپنی آفیشل ویب سائٹ پر جاری کی ہے تاکہ عوام ان سے باخبر رہ سکیں۔
ایس ای سی پی کے اندازے کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ شدہ مائیکرو فائنانس کی ایپس کو ڈاؤنلوڈ کرنے والے صارفیں کی تعداد تقریبا 52 لاکھ جبکہ غیر رجسٹرڈ شدہ کمپنیوں کی ایپس کو ڈاؤنلوڈ کرنے والے افراد کی تعداد ایک کروڑ کے قریب ہے۔
موجودہ صورتحال اور قرضہ ایپ سے متاثرہ افراد
عادل کا تعلق راولاکوٹ سے ہے اور انہوں نے انہیں غیر رجسٹرڈ کمپنیوں سے قرض کی کچھ رقم لی تھی۔ عادل کے مطابق انہیں اس وقت بھی مسلسل دھمکی آمیز کالز اور میسجز موصول ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق وہ پولیس میں بھی شکایت نہیں کر سکتے کیونکہ ان لوگوں کے پولیس میں بھی تعلقات موجود ہوتے ہیں۔
اسرار راجپوت کرائم رپورٹر ہیں اور اس معاملے پر مکمل تحقیق کر رہے ہیں۔ اسرار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پولیس اور ایف آئی اے کی کارروائیاں صرف عوام کے غم و غصہ کو کم کرنے کے لیے ہیں کیونکہ انہوں نے جانتے بوجھتے ہوئے بھی اب تک اصل ملزمان کو گرفتار نہیں کیا۔
اسرار کے مطابق بروقت ایپ پاکستان میں کسی اور کمپنی کے نام سے رجسٹرڈ ہے اور اس طرح کی دوسری ایپس کو ملک سے باہر موجود لوگ فنڈ کر رہے ہیں۔ اس لیے سالوں سے لوگوں کو لوٹتی یہ قرضہ ایپس اتنی آسانی سے بند نہیں کی جا سکتیں جبکہ لوگ اس سب کے بعد بھی مسلسل ان کی طرف سے بلیک میل ہو رہے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
