آسان ویزا: ہنگری کے فیصلے سے یورپ میں جاسوسی بڑھنے کا خدشہ
30 جولائی 2024ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ سے منگل 30 جولائی کے روز موصولہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ہنگری نے اپنے ہاں آنے والے روس اور بیلاروس کے شہریوں کے لیے ویزے کی شرائط میں جس نرمی اور آسانی کا فیصلہ کیا ہے، وہ یورپی یونین کے لیے ایک پرخطر سیاسی فیصلہ ہو سکتا ہے۔
اس فیصلے کے بعد اور خاص کر روس اور یوکرین کی جنگ کے تناظر میں روس اور ماسکو کے اتحادی ملک بیلاروس کے شہریوں کا ہنگری کا سفر اور وہاں قیام نہ صرف آسان ہو جائیں گے بلکہ یورپی یونین کے شینگن معاہدے کے سبب اور داخلی سرحدوں پر نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے غیر ملکیوں کا پوری یونین یونین میں بلا روک ٹوک سفر بھی ممکن ہو جائے گا۔
یورپی یونین کی کونسل کے سربراہ کے نام خط
یورپی پارلیمان میں مرکز سے دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی قدامت پسند سیاسی جماعتوں کے اتحاد یورپی پیپلز پارٹی نے بوڈاپیسٹ حکومت کے اس نئے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہنگری کے اس اقدام سے یورپی یونین میں روس اور بیلاروس کی طرف سے جاسوسی کا عمل اور زیادہ ہو سکتا ہے۔
'یورپی سرحدوں پر انسانی حقوق کی وسیع خلاف ورزیاں'، رپورٹ
یورپی پیپلز پارٹی ای پی پی کے سربراہ مانفریڈ ویبر نے اس بارے میں یورپی یونین کی کونسل کے صدر شارل مشیل کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ ہنگری میں وزیر اعظم اوربان کی حکومت کے نئے فیصلے سے ''یونین میں اس بلاک کے خلاف جاسوسی کے لیے بہت سنجیدہ نوعیت کے نقائص اور خامیاں پیدا ہو جائیں گے۔‘‘
نیوز ایجنسی روئٹرز نے اس بارے میں اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ اس کے نامہ نگاروں نے کسی طرح رسائی حاصل ہو جانے کے بعد یہ خط دیکھا اور پڑھا ہے۔ اس خط میں مانفریڈ ویبر نے شارل مشیل کو لکھا ہے، ''جاسوسی کی سرگرمیوں کے لیے پیدا ہونے والے یہ نقائص سلامتی کے لیے سنجیدہ نوعیت کا خطرہ بن سکتے ہیں۔‘‘
یورپی پیپلز پارٹی کے سربراہ ویبر نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے، ''اس نئی پالیسی سے روسی شہریوں کے لیے آزاد سرحدی معاہدے شینگن کے اندر آزادانہ نقل و حرکت کرنا آسان ہو جائے گا اور یوں یورپی یونین کے قانون کے تحت ان کی نقل و حرکت پر عائد پابندیاں بھی عملاﹰ نظر انداز ہو جائیں گی۔‘‘
ہنگری اور یورپی یونین کے مابین کھچاؤ
مانفریڈ ویبر کی طرف سے لکھے گئے اس خط کی سب سے پہلے اطلاع برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے دی تھی۔ روئٹرز کی طرف سے اس خط کے پڑھے جانے کے بعد جب بوڈاپیسٹ میں ہنگری کی حکومت سے رابطہ کیا گیا، تو اس نے کوئی بھی ردعمل ظاہر نہ کیا۔ دوسری طرف یورپی یونین کی کونسل کے صدر شارل مشیل کے دفتر کی جانب سے بھی اس بارے میں کچھ نہ کہا گیا۔
یوکرین جنگ: ہنگری کے وزیر اعظم اوربان کا کییف کا پہلا دورہ
روئٹرز کے مطابق ہنگری کی حکومت کا روس اور بیلاروس کے شہریوں کے لیے ویزا شرائط میں نرمی کا یہ فیصلہ اس کھچاؤ کا ایک اور ثبوت ہے، جو اس وقت ہنگری اور یورپی یونین کے مابین پایا جاتا ہے۔
ہنگری موجودہ ششماہی کے لیے یورپی یونین کا صدر ملک بھی ہے اور اس کے پاس یونین کی صدارت کی ذمے داریاں یکم جولائی کو شروع ہوئی تھیں، جو 31 دسمبر کو پوری ہو جائیں گی۔
جہاں تک ہنگری میں وزیر اعظم وکٹور اوربان کی حکومت کا تعلق ہے تو وہ یوکرین کی جنگ کے باوجود روس کے ساتھ قریبی تعلقات کی کوششیں کرتی دکھائی دیتی ہے۔
ہنگری کا ماسکو کے لیے ’امن مشن، برسلز برہم
سیاسی طور پر برسلز میں یورپی کمیشن کی قیادت کے لیے یہ بات اس لیے پریشانی کا باعث ہے کہ روسی یوکرینی جنگ میں برسلز کی طرف سے پوری طرح یوکرین کی حمایت کی جا رہی ہے جبکہ وزیر اعظم اوربان اپنے طور پر روس کے ساتھ بہت قریبی روابط کے لیے کوشاں ہیں۔
بوڈاپیسٹ حکومت کے روس اور سفید روس کے شہریوں کے لیے ویزا شرائط سے متعلق نئے فیصلے کے حوالے سے یورپی کمیشن کے ایک ترجمان نے منگل کے روز کہا کہ کمیشن ان نئے قوانین کے بارے میں ہنگری سے بات چیت کرے گا۔
مزید یہ کہ بوڈاپیسٹ کے لیے خود بھی اس امر کو یقینی بنانا لازمی ہے کہ اس کی اعلان کردی ویزا شرائط شینگن معاہدے کے تقاضوں سے قطعی طور پر ہم آہنگ ہوں۔
م م / ش ر (روئٹرز)