شامی باغیوں نے کہا ہے کہ اگر آستانہ مذاکرات ناکام ہوئے تو وہ لڑائی کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ قزاقستان کے دارالحکومت میں شروع ہونے والے اس نئے مذاکراتی دور کو شامی خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے شامی باغیوں کے ترجمان اسامہ ابو زید کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر آستانہ مذاکرات میں صدر بشار الاسد کے نمائندوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ طے نہیں پاتا تو لڑائی جاری رکھنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا: ’’ یہ مذاکرات کامیاب ہو گئے تو ہم اس عمل کے ساتھ رہیں گے لیکن اگر یہ ناکام ہوئے تو ہمارے پاس لڑائی جاری رکھنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہو گا۔‘‘
باغیوں کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے، جب آستانہ میں شروع ہونے والے مذاکراتی دور کے پہلے سیشن میں باغی رہنماؤں نے دمشق حکومت کے مندوبین سے براہ راست مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ شامی اپوزیشن کے نمائندے اس امن عمل کے اگلے مرحلے میں شامی وفد کے ساتھ براہ راست مذاکرات کو تیار ہو جائیں گے یا نہیں۔
اگر فریقین براہ راست مذاکرات کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو سن دو ہزار گیارہ میں شروع ہونے والے شامی تنازعے کے بعد پہلی مرتبہ شامی باغیوں اور دمشق حکومت کے نمائندے براہ راست مکالمت کریں گے۔ باغیوں کا کہنا ہے کہ ایران، ترکی اور روس کی کوششوں سے شروع ہونے والے ان مذاکرات کا بنیادی مقصد ملک میں فائر بندی معاہدے پر عملدرآمد مؤثر بنانا ہے۔ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایران نواز شیعہ فائٹرز اس جنگ بندی ڈیل کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
شام میں انسانی بحران کی تکلیف دہ صورتحال
فائربندی سے بھوک کے شکار پریشان حال شامیوں کو عارضی طور پر فائدہ ضرور ہو گا کیونکہ شام کے محصور علاقوں میں پھنسے انسانوں کی صورتحال المیے کی سی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
حلب کے بچے
شام میں حلب بین الاقوامی خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اب وہاں انخلاء کا عمل جاری ہے۔ یہ تباہ حال شہر جنگ کی ہولناکیوں کی علامت ہے۔ شہر کے مشرقی حصے میں نہ تو پانی ہے، نہ اشیائے خورد نوش اور نہ ادویات۔ عوام کی ایک بڑی تعداد کو سر پر چھت بھی میسر نہیں ہے۔ اس صورتحال میں اس شہر کے ایک لاکھ بچوں کو در در کی ٹھوکریں کھانا پڑ رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
چھ لاکھ انسان گھیرے میں
یہ تصویر مضایا کی ہے۔ اسی طرح کے اٹھارہ دیگر شہر بھی بیرونی دنیا سے کٹ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق محصور علاقوں میں چھ لاکھ افراد آباد ہیں، جو تنازعے کے فریقین کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر علاقے اسد حکومت کے زیر قبضہ ہیں۔ دمشق حکومت کی اجازت کے بغیر ان علاقوں میں امددی اشیاء تک نہیں پہنچائی جا سکتیں اور اسد حکام سے اجازت لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
مزاحمت کی علامت
داریا ان اوّلین شہروں میں شامل ہے، جہاں سے 2011ء میں اسد حکومت کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہوا تھا۔ دمشق حکومت نے سالوں تک اس شہر کو گھیرے میں لیے رکھا، جس کی وجہ سے داریا کے باسی بھوک و افلاس کا شکار ہو گئے۔ صورتحال سے تنگ آ کر اگست میں باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے، جو ان کی ایک بڑی شکست تھی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press
ہسپتالوں میں ہنگامی حالت
شام کے زیادہ تر ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج ممکن نہیں رہا۔ ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نامی تنظیم کے مطابق، ’’مرہم پٹی کا سامان تو ایک طرف ہسپتالوں میں ادویات تک موجود نہیں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے آپریشن تک کرنا ممکن نہیں رہا۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
کوئی جگہ محفوظ نہیں
گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران حلب کے محصور مشرقی حصے کے آٹھوں ہسپتالوں کو یا تو نقصان پہنچا ہے یا پھر وہ تباہ ہو چکے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق ابھی بھی کچھ ایسے ڈاکٹرز ہیں، جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ ایک ڈاکٹر کے بقول، ’’خود کو کہیں بھی محفوظ محسوس نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Leys
منقسم شہر
حلب حکومتی دستوں اور باغیوں کے مابین تقسیم ہے۔ باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی حصے میں حالات انتہائی خراب ہیں۔ اسد حکومت اور روس کی جانب سے روزانہ ہی اس حصے میں بمباری کی جاتی ہے اور روزانہ ہی کئی عمارتیں اور گھر کھنڈر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران حلب میں سینکٹروں عام شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Alhalbi
ہر شے کی قلت
حلب میں صرف باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں ہی بنیادی اشیاء کی قلت نہیں ہے بلکہ حکومتی فورسز کے قبضے میں جو علاقے ہیں، وہاں کے باسی بھی ان سہولیات سے محروم ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
ویرانی کیوں ہے؟
فضائی حملوں کے ڈر سے حلب کے شہری گھر سے باہر نکلنے کی ہمت کم ہی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس شہر میں عام زندگی گزارنا اب ممکن نہیں رہا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
ایک بڑی سی جیل
شام میں تازہ فائر بندی سے عام شہریوں کی زندگی میں تھوڑی سی آسانی ضرور پیدا ہوئی ہے۔ تاہم کسی کو یہ علم نہیں کے حالات کب تبدیل ہو جائیں۔ مقامی افراد کا خیال ہے کہ وہ ’’ایک بڑی سی جیل میں زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
9 تصاویر1 | 9
اگرچہ کچھ حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ آستانہ مذاکرات اہم ثابت ہوسکتے ہیں لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس عمل سے شامی بحران کے حل کے سلسلے میں کسی فوری پیشرفت کی توقع نہیں جا سکتی ہے۔ اس امن عمل کے لیے آستانہ کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ یورپ سے باہر ہونے کی وجہ سے اسے ایک غیرجانبدار مقام قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ شام میں قیام امن کے سلسلے میں جنیوا میں مذاکراتی سلسلے کا اگلا دور آئندہ ماہ منعقد کیا جائے گا۔ قزاقستان کے صدر نورسلطان نذربائیف نے تئیس جنوری بروز پیر کے دن صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ دراصل آستانہ مذاکرات جنیوا میں جاری امن عمل کے لیے مددگار ثابت ہوں گے: ’’مجھے یقین ہے کہ آستانہ میں ہونے والے مذاکراتی عمل سے ایسے حالات پیدا ہوں گے، جہاں تمام فریقین جنیوا فریم ورک کے تحت شام میں قیام امن کے لیے ایک متفقہ حل پر اتفاق کر سکیں گے۔‘‘