آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس
15 جون 2011چین اور روس کے ساتھ ساتھ قازقستان، کرغستان، ازبکستان اور تاجکستان بھی سن 2001ء میں قائم ہونے والی SCO یعنی شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے رکن ہیں۔ اس تنظیم کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی حریف تصور کیا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ روس اور چین اس تنظیم کے ذریعے براعظم ایشیا میں امریکی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ آج کا سربراہ اجلاس اس تنظیم کے قیام کی دَسویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہو رہا ہے۔
چار ملکوں ایران، منگولیا، پاکستان اور بھارت کو اس تنظیم میں مبصر کی حیثیت حاصل ہے اور ان چاروں ہی کی خواہش ہے کہ اُنہیں اس تنظیم کا مکمل رکن بنا لیا جائے، گو یہ منزل ابھی دور ہے۔ پاکستانی صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ساتھ ایران اور افغانستان کے صدور محمود احمدی نژاد اور حامد کرزئی بھی کل منگل کو ہی آستانہ پہنچ گئے تھے۔ کرزئی اس اجلاس میں ایک مہمان کے طور پر شرکت کر رہے ہیں۔
پاکستانی صدر زرداری کے ساتھ جانے والے وفد میں وزیر دفاع احمد مختار اور وزیر داخلہ رحمان ملک کے علاوہ خارجہ امور کی وزیر مملکت حنا ربانی کھر بھی شامل ہیں۔ کل منگل کو ہی زرداری نے قازقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیف سے بھی ملاقات کی۔
بھارت سے وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا بھی آستانہ میں ہیں، جنہوں نے کل ہی قازقستان کے صدر نذربائیف کے علاوہ روس اور چین کے صدور کے ساتھ بھی ملاقات کی۔
چینی صدر ہو جن تاؤ نے آستانہ میں ہونے والی ایک ملاقات میں اپنے ایرانی ہم منصب محمود احمدی نژاد کو بتایا کہ ایران کی جانب سے ایٹمی توانائی کے پُر امن استعمال کی ضمانت دینے کے لیے چھ قومی مذاکرات بہترین راستہ ہیں۔
گزشتہ ہفتے چین نے بھی مغربی طاقتوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کی جانب سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری میں مسلسل ناکامی سے یہ خدشات گہرے ہوتے جا رہے ہیں کہ ایٹمی پروگرام ممکنہ طور پر فوجی مقاصد کے لیے ہے۔
امریکہ، جرمنی، فرانس، برطانیہ، روس اور چین نے یہ بیان ایران کی جانب سے اس اعلان کے ایک روز بعد دیا تھا کہ تہران حکومت اعلیٰ قسم کی یورینیم کی پیداوار میں تین گنا اضافہ کر دے گی اور اسے ایک زیر زمین بنکر میں منتقل کر دے گی تاکہ وہ کسی ممکنہ امریکی یا اسرائیلی حملے سے محفوظ رہے۔ بتایا گیا ہے کہ احمدی نژاد نے ان چھ قومی مذاکرات میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
ایس سی او کے آج کے سربراہ اجلاس میں علاقائی تنازعات کی شدت کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ سلامتی اور تجارت کے ا مور پر بھی بات چیت کی جائے گی۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: ندیم گِل