1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسٹريليا نے مہاجرين کے معاملے پر وعدہ خلافی کی، اقوام متحدہ

عاصم سلیم
24 جولائی 2017

اقوام متحدہ کے مطابق آسٹريليا نے اپنی سرحدوں سے باہر قائم حراستی مراکز ميں موجود مہاجرين ميں سے چند کو پناہ فراہم کرنے اور تارکين وطن کے حوالے سے اپنی سخت پاليسی ميں نرمی متعارف کرانے کے معاملے ميں وعدہ خلافی کی ہے۔

Australien Protest Flüchtlinge Nauru
تصویر: Getty Images/L. Ascui

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر کے سربراہ فيليپو گرانڈی نے کينبرا حکومت کے بارے ميں يہ بيان آج پير چوبيس جولائی کو ديا۔ ان کے بقول کينبرا حکومت نے پچھلے سال نومبر ميں يہ  وعدہ کيا تھا کہ پاپوا نيو گنی اور ناؤرو جزائر پر موجود ايسے تارکين وطن کو آسٹريليا ميں پناہ فراہم کی جائے گی، جن کے آسٹريليا ميں روابط ہيں۔ اس کے بدلے يو اين ايچ سی آر نے ان جزائر پر موجود تارکين وطن کو امريکا منتقل کرنے ميں مدد فراہم کرنے کا کہا تھا۔ گرانڈی نے بتايا، ’’ہم نے ايسا کرنے کی حامی اس سمجھوتے پر بھری تھی کہ جن تارکين وطن کے رشتہ دار آسٹريليا ميں مقيم ہيں، انہيں وہاں بالآخر پناہ فراہم کی جائے گی۔ تاہم اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين کو مطلع کيا گيا ہے کہ آسٹريليا ان تارکين وطن کو بھی اپنے ہاں پناہ دينے پر راضی نہيں۔‘‘

قبل ازيں پچھلے اتوار کو آسٹريلوی اميگريشن ڈیپارٹمنٹ نے يہ کہا تھا کہ ان جزائر پر موجود پناہ گزينوں ميں سے کوئی بھی اگر آسٹريليا پہنچنے کی کوشش کرے گا، تو اسے واپس کر ديا جائے گا۔ آسٹريلوی وزير برائے اميگريشن پيٹر ڈٹن نے کہا، ’’کوليشن حکومت اس موضوع پر موقف واضح ہے، جن لوگوں کو علاقائی پراسسنگ سينٹروں ميں رکھا گيا ہے، وہ آسٹريليا کبھی منتقل نہيں ہو سکيں گے۔‘‘

آسٹريلوی وزير اعظم ميلکم ٹرن بال نے سابق امريکی صدر باراک اوباما کے ساتھ ايک ڈيل کو حتمی شکل دی تھی، جس کے تحت کچھ تارکين وطن کو امريکا ميں بسايا جانا تھا۔ اس ڈيل کو موجودہ امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ’احمقانہ‘ قرار دے چکے ہيں۔ آسٹريليا کے اپنی سرحدوں سے باہر قائم حراستی مراکز ميں اس وقت تقريباً ايک ہزار تارکين وطن موجود ہيں، جن ميں سے کئی کو طبی امداد درکار ہے۔

مہاجرين کے ليے سرگرم رضاکاروں کو ’خراج تحسين‘

01:50

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں