1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسٹريليا کے اميگريشن سينٹر ميں ہنگامے جاری

21 جولائی 2011

آسٹريليا کے کرسمس آئی لينڈ کے اميگريشن سينٹر ميں کل دوسری رات پھر ہنگامے ہوئے جن ميں پوليس نے آنسو گيس اور غير مہلک ہتھياروں کا استعمال کيا۔

کرسمس آئی لينڈ کے ساحل پر تارکين وطن کی کشتی
کرسمس آئی لينڈ کے ساحل پر تارکين وطن کی کشتیتصویر: AP

آسٹريليا کے اميگريشن کے وزير کرس بوون نے کہا کہ 20 سے 40 کے درميان زير حراست تارکين وطن نے بدھ اور جمعرات کی درميانی شب ايک بار پھر تشدد اور توڑ پھوڑ کی۔ انہوں نے بحرہند کے اس دور افتادہ اميگريشن سينٹر ميں ايک عمارت کو آگ بھی لگا دی۔

آسٹريليا ميں کشتيوں کے ذريع سياسی پناہ کی تلاش ميں آنے والوں کو لازماً حراست ميں لے ليا جاتا ہے۔ ان ميں سے اکثر ايسی خستہ حال کشتيوں ميں سوار ہوتے ہيں جن ميں سوراخ ہوتے ہيں۔ وہ انڈونيشيا سے انسانوں کی اسمگلنگ کے ايک مشہور راستے سے ہوتے ہوئے آسٹريليا پہنچتے ہيں۔ اُن کی پسنديدہ منزل مقصود بحرہند ميں واقع کرسمس آئی لينڈ ہی ہے جہاں زير حراست سياسی پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد تقريباً 600 تک رہتی ہے۔ سن 2010ء ميں کشتيوں کے ذريع آنے والوں کی تعداد تقريباً 7000 کی ريکارڈ سطح تک پہنچ گئی تھی، جس کی وجہ سے حکومت کو ملک ميں نئے مراکز بھی کھولنا پڑے۔

آسٹريلوی اميگريشن حکام انسانی اسمگلنگ ميں استعمال ہونے والی ايک کشتی جلا رہے ہيںتصویر: picture-alliance/dpa

کشتيوں کے ذريع آسٹريليا آنے والے سياسی پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد بہت بڑھ جانے کی وجہ سے عدالتی کارروائيوں کی مدت ميں اضافہ ہوا ہے اور بعض زير حراست افراد 18 مہينوں بلکہ اس سے بھی زيادہ عرصے تک جيل ميں بند رہتے ہيں۔ اس وجہ سے بھی تناؤ ميں بہت اضافہ ہو گيا ہے۔

آسٹريلوی حکومت نے سياسی پناہ کے لئے ویزوں کے دوخواست دھندگان کے اخلاقی کردار کے ٹسٹ اور زيادہ سخت کرديے ہيں اور اس کے نتيجے ميں حراست کے دوران ہنگاموں اور دوسرے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو اُن کے ممالک واپس بھيجا جا سکتا ہے۔ اس کا اطلاق کرسمس آئی لينڈ اور اس سال کے شروع ميں سڈنی ميں ہونے والے پر تشدد ہنگاموں پر بھی ہوتا ہے۔

آسٹريلوی وزير اعظم جوليا گيلارڈ تارکين وطن کے بارے ميں ايک پاليسی بيان سے قبلتصویر: AP

آسٹريليا کے اميگريشن کے وزير بوون نے سياسی پناہ کے خواہشمند زير حراست افراد کو تنبيہہ کی کہ اگر انہوں نے ہنگامے جاری رکھے تو انہيں ’قانون کی بھر پور طاقت‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے مزيد کہا: ’’اس قسم کی حرکتيں بالکل نا مناسب ہيں۔ يہ آسٹريلوی عوام کی توقعات کے قطعی خلاف ہيں۔ اس کا نتيجہ صرف يہی نکل سکتا ہے کہ ان افراد کو حراست سے نکال کر باقاعدہ جيلوں ميں منتقل کر ديا جائے۔‘‘

کم از کم 30 افراد کو پہلے ہی پچھلے ماہ اور مارچ ميں کرسمس آئی لينڈ اور اپريل ميں سڈنی ميں ہونے والے فسادات کے بعد گرفتار کرکے اُن پر فرد جرم عائد کی جا چکی ہے۔ سڈنی کے ہنگاموں ميں نو عمارات کو آگ لگا دی گئی تھی۔

آسٹريليا ميں ہنگاموں کی يہ تازہ لہر انسانی حقوق کے حاميوں کی اس تنبيہہ کے ساتھ آئی ہے جس ميں انہوں نے کہا ہے کہ سياسی پناہ کے متلاشی افراد کی جبری اور لمبی مدت کی حراست آسٹريليا کی انسانی حقوق کی بين الاقوامی ذمہ داريوں کی سنگين خلاف ورزی ہے۔

آسٹريليا کے انسانی حقوق کے کميشن نے کہا ہے کہ لازمی حراست کا نظام بنيادی طور پر ہی خراب ہے کيونکہ اس ميں نہ تو حراست کی کسی مدت کا تعين کيا گيا ہے اور نہ ہی اس کے خلاف عدالت ميں اپيل کی جا سکتی ہے۔

انسانی حقوق کی کمشنر کيتھرين برينسن نے کہا: ’’زير حراست افراد اکثر اس پر حيرت ظاہر کرتے ہيں کہ آسٹريليا جيسے ملک ميں اُن سے ايسی نا انصافی ہوسکتی ہے کہ اُنہيں عدالت ميں اپنی حراست کو چيلنج کرنے کا بھی موقع نہ ديا جائے۔ ہميں يہ تلخ تجربہ ہوا ہے کہ لمبی مدت کی حراست سے متاثرين کو شديد ذہنی نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘ برينسن نے کہا کہ اس وقت آسٹريليا کے سياسی پناہ کے حراستی مراکز ميں تقريباً 4000 افراد قيد ہيں۔ ان ميں بچے بھی شامل ہيں۔

رپورٹ: شہاب احمد صديقی

ادارت: کشور مصطفٰی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں