آسٹریا اور ہنگری میں عوامی رائے، تارکین وطن پریشان
7 ستمبر 2016براعظم یورپ کے دو ملکوں میں دو اکتوبر کے روز ہونے والے انتخابی عمل کو سارے خطے میں انتہائی اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ ہنگری میں وزیراعظم وکٹور اوربان نے ایک ریفرنڈم میں اپنی عوام سے یورپی یونین کے تارکینِ وطن کے لیے مقرر کوٹے کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا سوال پوچھ رکھا ہے۔ دوسری جانب جرمنی کے ہمسایہ ملک آسٹریا میں صدارتی الیکشن کے ایک نئے مرحلے میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ سابقہ صدارتی الیکشن کے نتیجے کو دستوری عدالت نے تسلیم نہ کرتے ہوئے تحلیل کر دیا تھا۔ محتاط اندازوں کے مطابق اِس انتخابی مرحلے میں قدامت پسند سیاسی جماعت فریڈم پارٹی کے امیدوار نوربیرٹ ہوفر کی پوزیشن پہلے کے مقابلے میں بہتر محسوس کی جا رہی ہے۔
اِس تناظر میں آسٹریا اور ہنگری میں تارکین وطن سے متعلق یورپی یونین کی پالیسیوں کو سخت مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ آسٹریا میں اِس وقت ایک لاکھ دس ہزار سے زائد تارکین وطن پناہ لیے ہوئے ہیں اور اُن کی درخواستوں پر دفتری کارروائی جاری ہے۔ ایسے میں اگر فریڈم پارٹی کے نوربیرٹ ہوفر صدر بن جاتے ہیں تو یہ پورپی یونین کی مہاجرین سے متعلق پالیسی کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ثابت ہو گا۔ وکٹور اوربان کی ہنگری کے ریفرنڈم میں کامیابی سے اندازے لگائے گئے ہیں کہ وہ تارکین وطن مخالف پالیسیوں کو اپنے ملک کے ہمسایوں سمیت دوسرے یورپی ملکوں میں بھی متعارف کرانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے UNHCR نے واشگاف انداز میں ہنگری کی ریفیوجی پالیسی پر تنقید کی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربان کے موقف اور کوٹا سسٹم کے حوالے سے جو نکتہ نظر ہے، اُس پر تنقید سے گریز کیا گیا ہے کیونکہ اِسے اندرونی معاملہ خیال کیا جاتا ہے۔ ہنگری میں تارکین وطن کے حق میں انسانی حقوق کے کارکن بولتے ہیں یا پھر غیر اہم اپوزیشن کی آواز گاہے گاہے بلند ہوتی ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور آسٹریا کے مستعفی ہو جانے والے چانسلر ویرنر فے مان نے گزشتہ برس یورپی یونین کے مہاجرت کے قوانین کو معطل کرتے ہوئے ہزارہا تارکین وطن کے لیے یورپی دروازے کھول دیے تھے۔ اِس صورت کے بعد آسٹریا کے چانسلر ویرنر فے مان کو بحرانی صورت حال کے ساتھ ساتھ ملکی صدارتی الیکشن میں اپنی پارٹی کے امیدوار کی شکست پر مستعفی ہونا پڑا۔ اِدھر جرمنی میں میرکل کو بھی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ گزشتہ ویک اینڈ پر اُن کی جماعت کو ایک صوبے کے انتخابات میں بھاری شکست کا سامنا رہا۔