اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق بین الاقوامی سمجھوتے سے اب ایک اور یورپی ملک آسٹریا دستبردار ہو گیا ہے۔ اس پہلے اسی سمجھوتے سے ہنگری نے علیحدگی اختیار کی تھی۔
تصویر: picture alliance / Jan Hetfleisch/EPA/dpa
اشتہار
مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق آسٹریا کی دائیں بازو کی قدامت پسند حکومت کے چانسلر سباستیان کرس اور نائب چانسلر ہائنس کرسٹیان اسٹراشے نے اس معاہدے پر دستخط نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چانسلر کرس نے واضح کیا کہ اُن کا ملک اس معاہدے پر کسی صورت دستخط نہیں کرے گا۔
سباستیان کرس نے اقوام متحدہ کے معاہدے کا حصہ نہ بننے کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ یہ سمجھوتا مہاجرت کے سنگین معاملے کو مناسب انداز میں طے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس معاہدے میں قانونی اور جائز مہاجرت اور غیرقانونی مہاجرت کے درمیان تفریق کی بھی وضاحت پوری طرح نہیں کی گئی ہے۔
چانسلر کرس نے یہ بھی کہا کہ اس معاہدے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سن 2019 میں ہونے والی رائے شماری میں آسٹریا شریک نہیں ہو گا۔ اسی طرح انہوں نے مزید کہا کہ مہاجرت کے معاہدے پر دستخط کی تقریب مراکش میں منعقد کی جانے والی ہے اور اُس میں بھی آسٹریائی نمائندہ شرکت نہیں کرے گا۔
آسٹریا کی دائیں بازو کی قدامت پسند حکومت کے چانسلر سباستیان کرستصویر: Imago/Xinhua
نائب چانسلر ہائنس کرسٹیان اسٹراشے نے اخبار ڈیئر اسٹینڈرڈ کو بتایا کہ مہاجرت کو کسی بھی صورت میں انسانی حقوق میں شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ہونی بھی نہیں چاہیے۔ آسٹریا کے چانسلر کی کابینہ کے بدھ اکتیس اکتوبر کو ہونے والے اجلاس میں اس حکومتی فیصلے کی باضابطہ منظوری دے گی۔ نائب چانسلر ہائنس کرسٹیان اسٹراشے انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ایف پی او سے تعلق رکھتے ہیں۔
آسٹریائی حکومت کا موقف ہے کہ اس معاہدے پر دستخط کے بعد اُن کی ملکی حاکمیت اور سکیورٹی کو جہاں خطرات لاحق ہو سکتے ہیں وہاں ملک کی آزادی کو بعض رکاوٹوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کا مہاجرین سے متعلق معاہدہ عالمی سطح پر پائے جانے والے اس حساس معاملے کو حل کرنے کے لیے طے کیا گیا تھا۔
امریکا اور ہنگری کے بعد آسٹریا نے بھی اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق بین الاقوامی معاہدے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان تینوں مالکوں میں عوامیت پسند حکومتیں قائم ہیں۔ اس تناظر میں تجزیہ کاروں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ دنیا بھر کے ایسے ممالک جہاں عوامیت پسندی کو استحکام اور فروغ حاصل ہو رہا ہے، وہاں آسٹریا کے فیصلے کو سراہنے کے ساتھ ساتھ تقلید کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
یورپ میں دائیں بازو کی سرکردہ عوامیت پسند خواتین رہنما
ایک نئی تحقیق کے مطابق دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی عوامیت پسند یورپی سیاسی جماعتوں میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے، یورپ میں دائیں بازو کی سرکردہ پاپولسٹ خواتین رہنما کون کون سی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فرانس کی مارین لے پین
مارین لے پین اپنی مہاجرین اور یورپی یونین مخالف سوچ کی وجہ سے شہرت رکھتی ہیں۔ وہ فرانس کی عوامیت پسند جماعت نیشنل ریلی (سابقہ نیشنل فرنٹ) کی سن 2011 سے قیادت کر رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی جماعت سے متعلق عوامی تاثر کو زیادہ اعتدال پسند معتدل بنانے کی کوشش کی ہے۔
تصویر: Reuters/E. Gailard
جرمنی کی فراؤکے پیٹری
اے ایف ڈی کی سابقہ شریک سربراہ فراؤکے پیٹری کی مہاجرین اور مسلمان مخالف پالیسیوں نے سن 2017 کے انتخابات میں دائیں بازو کی اس جرمن عوامیت پسند پارٹی کو وفاقی پارلیمان میں پہنچنے میں مدد دی۔ تاہم الیکشن میں کامیابی کے فوری بعد پیٹری نے اے ایف ڈی کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ اس جماعت میں موجود ان کے حریف اے ایف ڈی کو ایک بنیاد پرست جماعت بنانا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Eventpress
جرمنی ہی کی ایلس وائڈل
فراؤکے پیٹری کے سن 2017 میں اے ایف ڈی سے الگ ہونے کے بعد سے ایلس وائڈل پارٹی کی شریک سربراہ ہیں۔ سن 2013 میں وائڈل کی جانب سے سامنے آنے والی ایک ای میل میں انہوں نے کہا تھا کہ جرمنی غیر ملکیوں بالخصوص عرب باشندوں کی ثقافتی یلغار کے تلے دبا ہوا ہے۔ وائڈل کی جماعت ہم جنس پرستوں کی آپس میں شادیوں کے خلاف ہے لیکن وائڈل ذاتی طور پر ایسے ہی ایک رشتے میں بندھی ہوئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
پولینڈ کی بیاٹا شیڈُوؤ
یہ خاتون پولینڈ کی نائب وزیر اعظم اور رائٹ وِنگ پاپولسٹ پارٹی ’لاء اینڈ جسٹس‘ کی نائب سربراہ ہیں۔ اس جماعت کو پولستانی پارلیمان میں اکثریت حاصل ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین کی جانب سے مہاجرین کی پوری یونین میں منصفانہ لیکن کوٹے کی بنیاد پر تقسیم کی پالیسی کی شدید مخالف ہے۔
تصویر: Getty Images
ناروے کی سِیو ژینسن
سِیو ژینسن ناروے کی سیاسی جماعت ’پروگریس پارٹی‘ کی سربراہ ہیں، یہ جماعت مرکز کی جانب جھکاؤ رکھنے والی مخلوط ملکی حکومت میں بھی شامل ہے۔ ژینسن کھل کر اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں اور انہوں نے اسرائیل میں ناروے کا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹلی کی جورجیا میلونی
نیشنل کنزرویٹو برادرز آف اٹلی نامی پارٹی کی شریک بانی اور رہنما جورجیا میلونی انتہائی دائیں بازو کی سیاست کے حوالے سے وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے پندرہ برس کی عمر میں اٹلی کے نئے فاشسٹوں کی سماجی تحریک کے یوتھ ونگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ سن 2008 سے سن 2011 تک نوجوانوں کے امور کی وزیر بھی رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈنمارک کی پِیا کیئیرسگارد
پِیا کیئیرسگارد انتہائی دائیں باز وکی ڈینش پیپلز پارٹی کی شریک بانی ہیں۔ انہوں نے سن 1995 سے لےکر سن 2012 تک اس پارٹی کی قیادت کی۔ وہ مہاجرین مخالف سوچ کی حامل ہیں اور متنوع ثقافتوں کے خلاف اپنے شدید نوعیت کے نظریات کے باعث بھی جانی جاتی ہیں۔ ان کا بنیادی سیاسی جھکاؤ ڈنمارک میں مہاجرین کی آمد پوری طرح روک دینے کی طرف ہے۔